Masla Kashmir Hal Kyun Nahi Ho Raha (1)
مسئلہ کشمیر حل کیوں نہیں ہو رہا (1)

دنیا کا کوئی ایسا مرض نہیں، جس کی دوا نہیں اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں، جس کا حل نہیں۔ ہاں اگر بندہ کسی مرض کی دعا لینا ہی نہ چاہے یا ڈاکٹر حضرات مریض کو ٹھیک دوا ہی نہ چاہتے ہوں، تو اور بات ہے۔ اسی طرح کسی سماج یا دنیا کے اہل و عقد کسی مسئلے کو حل ہی نہ کرنا چاہتے ہوں، تو وہ کبھی حل نہیں ہوگا۔
اس وقت دنیا کے مسائل میں سرِ فہرست مسئلہ کشمیر ہے۔ یہ مسئلہ تقسیمِ ہند کے وقت جان بوجھ کر پیدا کیا گیا۔ کس نے پیدا کیا! عالمی طاقتوں نے۔ عالمی طاقتوں کے سرخیل امریکہ اور برطانیہ، فرانس اور اس کے ہمنواؤں نے جانتے بوجھتے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی صورت میں ایک سلگتی لکڑی رکھ دی تاکہ اس سے ہمیشہ دھواں اٹھتا رہے، دونوں ممالک وقتا فوقتا باہم دست و گریبان رہیں، ایک دوسرے کو للکارتے رہیں۔ ایک کہے میں تیری ایسی تیسی کر دوں گا۔ دوسرا کہے میں ٹبر کھا جاواں ڈکار نہ ماراں۔
اس مسئلے کے حل کو جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت جو عالمی نظام بنا ہے، یہ کن قوتوں نے بنایا ہے۔ یہ نظام جو اقوامِ متحدہ کی صورت میں ہے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بنایا ہے، جو دوسری جنگِ عظیم میں فاتحین کی صورت میں دنیا میں نمودار ہوئے تھے۔ اقوامِ متحدہ کے نام کا ایک ادارہ انھوں نے بنایا۔ پھر دنیا بھر کے ملکوں کو اس کی ممبرشپ دی گئی۔
ذرا غور کریں کہ نیا سسٹم کیسے وجود میں آ رہا ہے! کون بادشاہ ہے اور کون رعایا ہے! نیز ان کی حیثیت کیا ہے اور ہمارے جیسے ملکوں کی اوقات کیا ہے!
اب سوال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی صورت میں فساد کی جڑ کیوں رکھی گئی! تو جناب اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے۔ اگر دونوں ممالک میں سرے سے جھگڑا ہی نہ ہو تو دنیا بھر کی اسلحہ ساز کمپنیاں اپنا اسلحہ کسے بیچیں۔ سب سے زیادہ اور جدید اسلحہ امریکہ میں بنتا ہے۔ سب سے زیادہ اسلحہ ساز فیکٹریاں امریکہ میں ہیں۔ ان کا دماغ خراب ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔
پاکستان میں جو مارشل لا لگتے رہے ہیں تو انھیں امریکہ کی مکمل تائید حاصل رہی تھی۔ اگر پاکستان میں مارشل لا نہ لگتے، ایک سول حکومت ہوتی تو وہ انڈیا کی سول حکومت سے تعلقات بہتر کرکے مسئلہ کشمیر حل کر سکتی تھی۔ مگر دنیا کے چودھریوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ انھیں سوٹ کرتا تھا کہ پاکستان کی قیادت جرنیلوں کے ہاتھ میں ہو۔ کیوں؟ کیونکہ جس بندے کی تربیت ہی لڑائی بھلائی کے لیے ہو، اس نے کیا خاک ملک چلانا ہے۔ جس کے پاس ہر مسئلے کا حل لاٹھی، گولی ہو وہ کسی کے ساتھ نباہ نہیں کر سکتا، او کسے نال لا کے نئیں کھا سکدا۔
اس وقت چار طبقات کے مفادات مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے سے جڑ چکے ہیں۔ پہلا طبقہ ہے اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان۔ یہ بدبخت یورپ کی حکومت میں اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا تو اس کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔
دوسرا طبقہ پاکستان کا "وڈا چودھری" ہے۔ اسلحہ خریدتے وقت اچھا خاصا کمیشن ملتا ہے ان وڈے چودھریوں کو۔ اسی کی وجہ سے یہ کبھی سامنے آ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالتے رہے ہیں اور کبھی پیچھے رہ کر حکومت کرتے رہے ہیں۔ دھن بھی خوب سمیٹا اور اقتدار کا شوق بھی پورا کیا۔
تیسرا طبقہ ان کے ہمنوا مولویوں کا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور بدلے میں مذہب کی آڑ میں ڈھیروں مراعات پائیں۔ متحدہ مجلس عمل کا دوسرا نام ہی "ملا ملٹری الائنس" پڑ گیا تھا۔ کشمیر اور افغان روس جہاد (جو دراصل فساد تھا) کے نام پہ بہت مال سمیٹا ان بہت "اللہ والوں" نے۔ مسئلہ کشمیر کا سرد خانے کی نذر ہونا انھیں بھی وارا کھاتا ہے۔
چوتھا طبقہ انڈین آرمی ہے۔ ان کا کمیشن ہمارے چودھریوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ وہ ہم سے کہیں زیادہ اسلحہ خریدتے ہیں۔
اب حالیہ جنگ ہی کو لے لیں۔ اس جنگ کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا بیان آیا ہے کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوگا۔ عوام کو بھی ریلیف دیں گے۔ دفاعی بجٹ بڑھنے کا مطلب ہے کہ جو پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پہ خرچ ہونا تھا، اس کا ہم اسلحہ خریدیں گے۔ دوسری طرف بھارت نے روس سے s400 میزائل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
یہ ہے مسئلہ کشمیر نہ حل ہونے کی وجہ۔ اس جنگ میں بظاہر فتح پاکستان کی ہوئی ہے مگر حقیقت میں اس قوم کی شکست ہوئی ہے۔ کیوں! چونک گئے! چونکنا بنتا ہے آپ کا۔ قوم کی شکست اس لیے کہ فوجی گُڈی اور چڑھ گئی ہے اوپر۔ ہر طرف اشتہار لگ گئے: جنرل عاصم منیر تیرا ایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا اور زبانوں پہ ترانے گونج اٹھے جہاد کے۔ جب تک ملک کے فیصلے اکیلی سول حکومت نہیں کرے گی، تب تک اس ملک کی سمت درست نہیں ہوگی۔
اس لیے اس فتح پہ زیادہ شادیانے نہ بجاؤ، زیادہ اچھل کود نہ کرو۔ فتح یقیناً ملک کی ہوئی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ غریبوں کو رگڑا بھی لگا ہے اسلحے کی خریداری کی صورت میں بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے۔
یہ ہے مسئلہ کشمیر نہ حل ہونے کی وجہ۔ محدود دائرے سے نکلیں۔ جن عالمی چودھریوں اور دنیا کے اصل تھانے داروں نے اپنے مفادات کی بساط بچھائی ہے، ان کے نظام کو سمجھیں۔ پاکستان اور بھارت کے متعلق مجھے اداکار متھن چکرورتی کا ایک ڈائیلاگ یاد آ گیا۔ اس نے قادر خان سے کہا: ہم شطرنج کے مہرے ہیں۔ جہاں رکھ دیا پڑے رہے، جیسے چال چلی چل دیے۔
جاری ہے۔۔

