Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Maryam Nawaz Ka Aima Ko Wazifa, Mezhabi Ya Siyasi

Maryam Nawaz Ka Aima Ko Wazifa, Mezhabi Ya Siyasi

مریم نواز کا آئمہ کو وظیفہ، مذہبی یا سیاسی

بعض اوقات ظاہر میں جو چیز نظر آتی ہے، حقیقت میں وہ نہیں ہوتی اور ہو سیاست کی دنیا اور اس میں نظروں کا دھوکا نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ مریم نواز نے ائمہ کا وظیفہ کیا لگایا، ہر سُو شور مچ اٹھا۔ تحقیر کرنے والوں نے تلواریں سونت لیں اور تحسین کرنے والوں نے نہ صرف واہ واہ کہنا شروع کر دیا بلکہ اس وظیفے کو بڑھانے کا مطالبہ کر دیا۔ جاوید چودھری صاحب نے تو 50 ہزار سے اوپر کی عرضی پیش کر دی۔ فریق دونوں ہی نہیں سمجھ پائے کہ اصل معاملہ کیا ہے! دونوں حب و بغض کا شکار ہو گئے۔

دراصل مریم نواز کا ائمہ کو وظیفہ دینے کا فیصلہ میرے خیال میں یہ کوئی مذہبی نہیں، سیاسی فیصلہ ہے۔

ایک بات یاد رکھیں! پوری دنیا میں جتنا تیز ایک سیاست دان ہے، اتنا کوئی نہیں ہوتا۔ وکیلوں کے بارے میں ایک شعر بڑا مشہور ہے:

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا

لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

یقینا وکیل تیز ہوتا ہے، مگر سیاستدان اس کا بھی باپ ہوتا ہے۔ سیاستدان بہت چالاک اور بہت مکار ہوتا ہے۔ لیکن سیاست دان کی تصویر کا یہ رخ جتنا تاریک ہے اس کا دوسرا رخ اس سے کہیں زیادہ روشن ہے۔ وہ یہ کہ چالاک اور مکار سیاستدان ہی ملک چلا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں یہی جچتا ہے۔ ملک کی باگ ڈور صرف اسے ہی سونپی جا سکتی ہے۔ پاکستان کا بڑے سے بڑا جج، جرنیل، صحافی، علامہ، ذاکر یا دانشور ملک نہیں چلا سکتا۔ ملک چلانا مولانا طارق جمیل جیسوں کے بس کی بات نہیں۔ ایسا کیوں ہے! یہ پھر کبھی سہی۔

اب آتے ہیں مریم نواز کی اس سخاوت کی طرف۔ اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم آپ کو تحریکِ لبیک کا پس منظر بتائیں۔ یہ جماعت ممتاز قادری کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے اور پھر اس پہ مقدمہ چلنے کے نتیجے میں بنائی گئی۔ گویا اس جماعت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ پھر اس بنیاد پہ عمارت تعمیر کی جنرل فیض اینڈ کمپنی نے۔ کیوں؟ پنجاب میں نون لیگ کا ووٹ توڑنے کے لیے۔ پروجیکٹ عمران اس وقت زیر تعمیر تھا۔ اسے انھوں نے پروان چڑھانا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ ووٹ بینک پہ نقب لگانے کے لیے تحریک لبیک ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا! اس لیے کہ پنجاب پہ حکومت نواز شریف کی تھی اور یہ آپ جانتے ہیں کہ جس کا پنجاب، اس کا وفاق۔ پنجاب جس کی مٹھی میں ہے، وفاق بھی اس کی مٹھی میں ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مذہبی ووٹ ہمیشہ نواز شریف کا رہا ہے۔ یہ کبھی پیپلز پارٹی کی طرف گیا اور نہ ہی اس کا پلڑا پی ٹی آئی کی طرف کبھی جھکا۔ تحریک لبیک چونکہ مذہبی جماعت ہے، اس لیے نواز شریف کے خلاف اسے میدان میں اتارا گیا۔

اس مقصد میں وہ ٹھیک ٹھاک کامیاب رہے۔ 2018ء کے الیکشن میں اس جماعت نے قریبا 25 لاکھ ووٹ لیے تھے۔ معمولی ووٹ نہیں۔ اگر ووٹوں کی مجموعی حیثیت کا اعتبار کیا جاتا تو اس الیکشن میں ان کے کئی ایم پی ایز، ایم این ایز نکلتے تھے۔

پھر 2024ء کے الیکشن میں بھی انھوں نے ٹھیک ٹھاک ووٹ لیے۔ سیاسی نگاہ رکھنے والوں نے کہا کہ اگر مجموعی ووٹوں کے لحاظ سے سیٹیں ملتیں، تو ان ووٹوں سے کم از کم 35-30 سیٹیں نکلتی تھیں۔ چونکہ یہ ووٹ بکھرا ہوا تھا، اس لیے ایک دو سیٹیں ہی نکال پایا۔ 2018ء کے الیکشن میں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ نون لیگ کے کئی کینڈیڈیٹ محض چند ووٹوں کی کمی سے ہارے تھے اور یہ کمی تحریک لبیک والوں کے ووٹوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔

نون لیگ اب پریشان تھی کہ ان نامرادوں کا توڑ کیسے کیا جائے۔ ٹی ایل پی کا ووٹ بینک آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ اس کا سوشل میڈیا تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا نون لیگ پہ اور یہ ایک مستند اصول ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ پس پی ٹی آئی کا دشمن نواز شریف اور نواز شریف کی دشمن تحریک لبیک۔ یوں نون لیگ کے دو دشمنوں کی دوستی ہوگئی۔ یہ جو تحریک لبیک کے خلاف آپریشن ہوا اور اس پہ پی ٹی آئی والوں نے رولا ڈالا تو یہ اسی اصول کے تحت تھا جو اوپر درج ہوا۔ وگرنہ اہلِ تحریکِ انصاف تو مولویوں سے نفرت کرتے ہیں۔ TLP سے یہ محبت بغضِ نواز کی دین تھی۔

کہتے ہیں سانپ کی موت آئے تو وہ رستے میں آ جاتا ہے۔ تحریک لبیک والوں کی موت آ گئی۔ اچھے بھلے ووٹ ان کے بڑھ رہے تھے۔ جماعت روز بروز ترقی کر رہی تھی۔ سوشل میڈیا میں انھوں نے ادھم مچایا ہوا تھا۔ ہر طرف ان کی بلے بلے ہو رہی تھی۔ تو اس جوش میں یہ ہوش کھو بیٹھے اور ایسا دھرنا دے ڈالا، جس کی کوئی تک ہی نہیں بنتی تھی۔ بریلویوں کے بڑے بڑے علما بھی اس دھرنے کی تائید نہیں کر سکے۔ سب حیران کہ ایک دم انھیں سوجھی کیا۔ دھاوا بول دیا۔ ادھم مچاتے ہوئے آئے اور سڑکیں بند کر دیں۔ اعلان کیا کہ ہم تو امریکی ایمبیسی کے سامنے جا کے دھرنا دیں گے۔ بھئی! وجہ؟ اوہ جی! فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے۔ نادانو! خود فلسطینیوں نے وہ 20 شرائط مان کر سکھ کا سانس لیا۔ 70 ہزار بندہ ان کا مر چکا ہے۔ غزہ سارا کھنڈر میں بدل گیا ہے۔ عرب، جن کا مسئلہ تھا، انھوں نے بھی ہتھیار پھینک دیے۔ ایران بھی مان گیا۔ تم نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ بلاوجہ ہی موت کو آواز دے ڈالی۔ اوپر سے انھوں نے پولیس سے متھا لگا لیا۔ جھڑپیں شروع کر دیں۔ کئی پولیس والے قتل ہوئے ان کے ہاتھوں اور کئی سو زخمی ہو گئے۔

یہ تھی آئیڈیل صورتحال نون لیگ کے لیے۔ انھوں نے کہا اب نہیں تو کب، ہم نہیں تو کون۔ لوہا گرم ہے، سٹ مارو۔ پھر اڑا کے رکھ دیا پوری تحریکِ لبیک کو۔ جو سروں پہ کفن باندھ کے آئے تھے، وہ بھاگ نکلے۔ جھاڑو پھیر دیا ن لیگ نے۔ TLP کو آ گئی نانی یاد۔ اوپر سے انہوں نے اس پہ پابندی لگا دی۔ تاکہ ٹی ایل پی بن جائے ماضی کی ایک داستان بھولی بَسری۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ہے۔

اب ن لیگ کے لیے ایک مسئلہ آن پڑا کہ مذہبی طبقہ کہیں ناراض ہو کر نئی جماعت بنانے کا اعلان نہ کر دے۔ یا اگلے الیکشن میں ناراض ہو کر ووٹ ہی نہ ڈالنے آئے۔ تحریکِ انصاف کو تو یہ ووٹ دے گا نہیں۔ ہمیں بھی ووٹ نہ دے۔

اس کا توڑ نکالنے کے لیے ن لیگ نے ایک چال چلی۔ وہ یوں کہ سارے مسالک کے بڑے بڑے علما کو، ساری مذہبی جماعتوں کے قائدین کو اپنے پاس بلایا۔ ایک تو مولوی حضرات ویسے ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ سامنے کیمرے لگے ہیں اور ساری دنیا انھیں دیکھ رہی ہے۔ چال نون لیگ نے یہ چلی کہ 65 ہزار مساجد کے اماموں کو ماہانہ 20 ہزار وظیفہ دینے کا اعلان کر دیا۔

دوسری چال یہ چلی کہ جن مساجد اور مدارس کو سیل کیا گیا، ان کی باگ ڈور مفتی منیب الرحمان کے حوالے کر دی۔ یوں سانپ بھی مار ڈالا اور لاٹھی بھی بچا لی۔

یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، مذہبی نہیں، مولویوں کی خدمت نہیں۔

یہ ایک کڑوا گھونٹ تھا جو ن لیگ کو بھرنا پڑا۔ کیونکہ 2013ء میں جب ن لیگ کی حکومت آئی تو انھوں نے پنجاب کے بعض مدارس کا سالانہ 6 لاکھ روپیا بند کر دیا تھا۔ یہ بات مجھے ایک پیر صاحب نے بتائی تھی، جس کا اپنا مدرسہ یہ پیسے لے رہا تھا۔ سراسر یہ مجبوری کا سودا ہے۔

اچھا مریم نواز کی جگہ پہ کوئی اور حکمران ہوتا، عمران خان، فضل الرحمان، زرداری وغیرہ۔ تو اس نے بھی یہی چال چلنی تھی۔ سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کے سہارے ہی تو زندہ رہتی ہیں۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz