Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Main Ne Aik Farishta Dekha (2)

Main Ne Aik Farishta Dekha (2)

میں نے ایک فرشتہ دیکھا (2)

رہے محمد عزیز تو وہ بھی لتا جی کی طرح اپنی ذات میں معصومانہ ادائیں رکھتے تھے۔ ہزاروں گانے ان کے تھے۔ جو چھین کر دوسرے گلوکاروں سے گوائے گئے۔ اس بندے نے مگر اف تک نہیں کی۔ اس کی آواز کی لذت اور چاشنی میں کوئی محمد رفیع، کشور کمار، مکیش، ادت نارائن، کمار سانو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گانا "آج ہم کو آدمی کی پہچان ہوگئی" میں ان کی آواز کشور صاحب کی آواز کو صاف شکست دے رہی ہے۔ انڈسٹری نے مگر اسے پچھلی صفوں میں ہی رکھا۔

اس کے باوصف آپ نے کبھی کسی کا گلہ نہیں کیا، کبھی کسی سے اپنا تقابل نہیں کیا۔ جتنے کا چیک ملا، خاموشی سے لیا اور گھر آگئے۔ انڈین فلم انڈسٹری نے ہمیشہ اسے نظر انداز کیا۔ ایک بار صرف اتنا کہا: فلم "خدا گواہ" میں میرے سب گانے ہٹ ہوئے۔ اس کے بعد مجھ سے دوری اختیار کر لی گئی۔ معلوم نہیں یہ سورج ڈوبا کیسے! بہت معصوم، بہت معصوم تھے میرے محمد عزیز، کسی چھوٹے بچے کی طرح۔ خدا اسے غریقِ رحمت کرے!

جہلم کے میرے ایک استاد پروفیسر عشرت حسین مرزا مرحوم بھی اسی قبیلے سے تھے۔ جب میں نے F-A کی فیس دی تو بنا گنے کمال بے نیازی سے جیب میں ڈال لی۔ دراصل اس سے مجھے پیغام دیا کہ تو میرے بیٹے ہی کی طرح ہے۔ جب میں بیٹے سے لیے پیسوں کو نہیں گنتا، تو تجھ سے لیے پیسوں کو کیوں گنوں۔ طلبہ سے شفقت ان کے رُواں رُواں میں تھی۔ ان کے لہجے کی مٹھاس مجھے بہت بھائی۔ لہجہ کیا! پورا سراپا ہی شہد گھلا تھا۔

میرے کرم فرما استاد محمد یعقوب قریشی مرحوم بھی، جن سے میں نے حدیث کی آخری کتاب بخاری شریف پڑھی، خدا کے کرم کی بدلی تھے جو ساری زندگی اپنوں پرایوں پہ برستی رہی۔ زمانہ ہمیشہ ان کا قدر ناشناس رہا۔ ساری زندگی مدرسوں میں پڑھتے پڑھاتے گزری۔ مگر ارباب میں سے کوئی ان کی ڈھنگ کی خدمت نہ کر پایا۔ جب کبھی ان کے حوالے سے اہلِ مدرسہ کی بے رخی یاد آتی ہے تو دل میں کانٹا سا چھبتا ہے۔ یہ احساس روگ سا بن کر لہو میں دوڑنے لگتا ہے۔ بے نیازی اور وہ بھی ایک فرشتہ صفت سے! ایک دانشور سے! کمال ہے بھئی! مجھے مولویوں کا قبیلہ بالکل پسند نہیں۔ یہ واحد بندہ تھا جو اپنی فراست اپنے علم کی بنا پر پسند تھا۔ اپنے ظاہر اور باطن میں بہت ستھرا تھا۔ غالباً 2001ء میں جب دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت ان کی تنخواہ محض 5500 روپے تھی۔ اس "خطیر رقم" سے ان کی حیثیت کا بھی اندازہ لگا لیں اور جنھوں نے انھیں یہ حیثیت دی ان کی اوقات بھی دیکھ لیں۔

اس نوع کی ملکوتی صفات جاوید احمد غامدی صاحب کی بھی ہیں۔ انھیں خدا کی نشانی قرار دیں تو بےجا نہیں۔ قسمت دیکھیں! ان میں جس قدر اعلیٰ درجے کی سنجیدگی ہے، ان کو ملی پاکستانی قوم میں اتنی ہی ادنیٰ درجے کی غیر سنجیدگی ہے۔ مان لیا کہ ان کے چند ایک مذہبی تصورات آپ سے مختلف ہیں۔ مگر ایسی بھی کیا بے رخی کہ اسے آپ دین سے بغاوت کے زمرے میں لے آئیں۔ یاروں نے اپنے ترکش میں رکھا دشنام یا الزام کا کوئی ایسا تیر نہیں جو ان پہ چھوڑا نہیں۔ یوٹیوب پہ ان کی خوفناک شکلیں بنا کر ان کی ہتک کی گئی۔

ایرے غیرے کا کیا ذکر! مفتی منیب الرحمان صاحب نے ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں ساری قوم کے سامنے انھیں جاہل کہا۔ "جاہل" آخری درجے کی گالی ہے۔ اندازہ لگائیں! گالی دے کون رہا ہے اور دی کس کو جا رہی ہے۔ اس ایک دشنام نے مفتی صاحب کی زندگی بھر کی سیکھی مذہبی تعلیم پہ بدنما سوالیہ نشان لگا دیا۔ مگر مفتی صاحب کو کوئی احساس ہی نہیں۔ غامدی صاحب ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے تھے۔ مگر ان کی تہذیب کو یہ گوارا نہیں تھا۔ کہا تو بس اتنا کہ ہم جیسے جاہل آپ سے سیکھنے ہی کے لیے تو یہاں آپ کے سامنے بیٹھے ہیں مفتی صاحب!

بس یہی چار پانچ لوگوں سے میں واقف ہوں، جن کی بچوں کی سی سادگی اور بچوں کا سا بھولپن ان کے ساتھ ہمیشہ رہا۔ دراصل یہ نایاب لوگ ہوتے ہیں، خدا جنھیں بڑی فرصت کے لمحات میں بڑی "ریجھوں" کے ساتھ خلق کرتا ہے۔ وقتِ تخلیق ان کے لیے بہت عمدہ مٹی کا انتخاب ہوتا ہے۔ کبھی سوچا! ایسوں کا اخلاق کیوں من موہ لیتا ہے، ایسی کیا خاص بات ہے ان میں جو انھیں اوروں سے خاص بناتی ہے!

دراصل ان کی ذات میں وہ معصومیت ہوتی ہے جو ایک چھوٹے بچے میں ہوتی ہے۔ بچہ کیوں پیارا لگتا ہے! اپنی دلکش معصومیت کی وجہ سے۔ نیک ہونا اور ہے اور بڑھاپے میں بھی اپنے بچپن کا حسن ہاتھ سے جانے نہ دینا اور ہے۔

آپ ایک بار اس ذاتِ والا صفات سے، حاجی عبدالستار صاحب سے مل کر دیکھیے۔ گمان ہوگا کہ گفتگو میں بیک وقت عمر رسیدگی کی سنجیدگی بھی ہے اور بچپن کی معصومیت بھی ان میں صاف جھلک رہی ہے۔ لہجے کی نرمی اور جملوں کی مٹھاس صاف بتا رہی ہوگی کہ نیک ہونا بڑی بات نہیں، نیکی میں ایک بچے کی معصومیت کا شامل ہونا بڑی بات ہے۔ اسی وجہ سے تو ان پہ ٹوٹ کے پیار آتا ہے۔ جو انھیں تھوڑا سا بھی جان لے وہ ان کے متعلق رطب اللسان ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ جہاں تک میں ان کے ماضی سے واقف ہوں تو اس نیک بخت نے محمد عزیز، لتا جی، عشرت حسین مرزا، محمد یعقوب قریشی اور جاوید احمد غامدی صاحب صاحب ہی کی طرح ساری زندگی محبتیں لٹاتے گزاری۔ نیکی کرتے وقت صلے کی پروا کی نہ ستائش کی کوئی تمنا ہی پالی۔ جو دان کیا، فقط رب کو راضی کرنے کے لیے کیا۔

قرآن کی آیت "وَ لَا تَمُنُنُ تَسُتَكُثِرُ" کی عملی تصویر ہیں۔ فی زمانہ تو چلن سا بن گیا ہے۔ ایک محسن کا واسطہ احسان فراموشوں سے پڑتا ہے یا محسن کُشوں سے۔ ان کی حیات میں بھی بہتیرے ایسے آئے ہوں گے۔ مگر مجال ہے کبھی ان کے متعلق گلہ گزار ہوئے ہوں یا لب پہ کوئی شکایت ہی آئی ہو۔ کسی کے یاد دلانے پر بھی نوازتے اسے دعاؤں سے ہی ہیں۔ کیا کمال کا ظرف پایا ہے اس بندے نے! کیا خوشبو دار انسان ہے! عظمتیں ایسوں پہ ہی ٹوٹ کے برسا کرتی ہیں۔ خدا کی رحمت ہر دم ایسے بندے کو اپنے حصار میں رکھتی ہے۔ مجھ عقیدت مند کی دعا ہے ان کے حق میں کہ خدا ان پہ اپنا سایۂ کرم اس دنیا میں بھی رکھے اور اس دنیا میں بھی رکھے۔

قدرت کا کرم در کرم دیکھیں! ہم سفر بھی قریب قریب ان کے ہم پلہ ملا۔ نانی محترمہ کو بھی زندگی بھر کسی سے تُوتکار یا تکرار کرتے دیکھا نہ سنا۔ سراپا حیا اور سراپا شفقت۔ مشرقی عورت کا ایسا کوئی گُن نہیں جو اللہ نے ان کی فطرت میں نہیں رکھا۔ خدا کی اس تخلیق پہ حیرت ہے اور بہت حیرت ہے کہ اس نے دونوں میاں بیوی کو ایک سی اور بہت سلجھی ہوئی طبیعتیں دے کر دنیا میں بھیجا۔ لگتا ہے دونوں کو خلق کرتے ہوئے اس نے ایک ہی جگہ کی پاکیزہ مٹی لی۔ پھر اس میں کردار کے ہر اس حسن کی خوشبو رکھی جو جو نیک چلنی کے ہر زاویے کے لیے ضروری ہے۔ خدا اس جوڑے پہ کس قدر مہربان ہے! اس پہ حیرت بھی ہے اور خوشی بھی۔ جُگ جُگ جییں۔ یہ اپنے کنبے کے لیے ایک پھل دار اور سایہ دار درخت کی مانند ہیں۔ تمنا ہے ان کی اولاد اور ان کے لواحقین تادیر ان سے مستفید ہوں!

خدا لگتی بات ہے۔ تصور میں ان کا چہرہ دیکھوں یا ان کی تصویر پہ نظر پڑے تو آنکھیں عقیدت سے جھک جاتی ہیں۔ اس قدر عظیم انسان ہے! سچی بات ہے، ایسوں کو ستانا سیدھا خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اگر پیری مریدی کا کلچر مذہبی ہوتا تو میں ان کے ہاتھ پہ بیعت کرتا۔ مگر کیا کروں! یہ برصغیر کی ثقافت ہے۔

نوٹ: فرشتہ، نیک نام ہونے کی ایک اصطلاح ہے جو سماج میں رائج ہے۔ اس لیے اسے بطورِ استعارہ لانا پڑا۔ وگرنہ ان کا پایہ فرشتے سے کہیں برتر ہے کہ ایک مسجود کو ساجد سے کیا نسبت۔ جس ذات کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے خلق فرمایا، اس میں اپنی روح پھونکی اور اس کے اذن سے پھر اس کے آگے سب ملائک سجدۂ تعظیمی بجا لائے ہوں، اسے سراپا خیر قرار دینے کے لیے فرشتہ کہنا کور ذوقی ہے، کم فہمی ہے۔ چونکہ معاشرے میں چلن ہے اس لیے یہ اصطلاح استعمال کرنی پڑی۔ وگرنہ حاجی عبدالستار صاحب کی عظمتوں کے سورج کے آگے فرشتوں کے چراغ کیا معنی رکھتے ہیں!

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari