Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Main Ne Aik Farishta Dekha (1)

Main Ne Aik Farishta Dekha (1)

میں نے ایک فرشتہ دیکھا (1)

باغبان فلم میں سلمان خان ایک تقریب میں حاضرین سے کہتے ہیں: "آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ بھگوان کو کس نے دیکھا ہے۔ ہے تو یہ ایک عقیدے کی بات، لیکن میں آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے بھگوان کو دیکھا ہے، جیتے جاگتے، ہنستے بولتے، ہر خوشی اور ہر غم میں، ہر حال میں اور وہ کوئی اور نہیں میرے بابو جی ہیں"۔

تصور میرا بھی سلمان خان کی طرح ہے۔ لیکن یہ بھگوان کے بارے میں نہیں، ایک فرشتے کے بارے میں ہے۔ آپ میں سے کسی نے فرشتے کو نہیں دیکھا، لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہہ سکتا ہوں سے کہ میں نے فرشتے کو دیکھا ہے۔ جیتے جاگتے، ہستے بولتے، ہر خوشی میں، ہر غم میں، ہر حال میں اور وہ کوئی اور نہیں میری ماں جیسی چچی کے والد حاجی عبد الستار صاحب ہیں۔ حاجی ستار کے نام سے لوگ انھیں جانتے ہیں۔ ان کی عادات اور اطوار میں آپ کو فرشتوں کی سی مہک محسوس ہوگی۔ لگتا ہے خدا نے خلق تو ایک فرشتے کو کیا۔ پھر جانے اسے کیا سوجھی، اسے انسان کا جامہ پہنایا اور دنیا میں اتار دیا۔ ان سے مل کر، ان کے پاس بیٹھ کر اور انھیں سن کر لگے گا کہ قدرت پیغام دے رہی ہے کہ مل آپ ایک انسان سے رہے ہیں مگر احساس آپ کو ایک فرشتے کا ہو رہا ہے۔ ان کی نفسیات میں، ان کے معمولات میں خدا نے ملائکہ کی سی خُوبو رکھی ہے۔ دونوں میں فرق صرف سانچے کا ہے۔ نفسی میلانات ایک سے ہیں۔

حاجی صاحب کے احساسات میں قدرت نے جس درجے کی لطافت رکھی ہے، ان کے لہجے میں جو شائستگی ہے، یہ انھی کا خاصہ ہے۔ کیا شاندار انسان ہے! اخلاقی حسیں جس کی ہر دم بیدار رہتی ہیں۔ عام بشری قباحتیں جو مجھ سمیت تقریباََ ہر کسی کو لاحق ہیں، وہ انہیں چھو کے بھی نہیں گزریں۔ دل کیا ہے! ایک آئینہ ہے۔ شفافیت میں شاید آئینے سے بڑھ کے ہے۔ دل کو کدورت سے پاک رکھنے کے لیے فطرت نے عالمِ ارواح میں یا وقتِ تخلیق پورا پورا اہتمام کیا ہے۔ ظرف ان کا اپنی وسعت اور گہرائی میں کمال بھی ہے اور جمال بھی۔

بولتے ہیں تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ شہد سے گھلے لفظ اور ابریشم کی طرح کے نرم جملے کانوں میں پڑتے ہیں تو گویا رس گھولتے ہیں۔ ان کے پاس بیٹھے ہوں تو من کرتا ہے کہ وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے جائیں۔ یہ خوشبو صرف لفظوں سے ہی نہیں ان کے جسم سے بھی آئے گی۔ کس کی؟ بچوں کی سی معصومیت کی، حسنِ کردار کی۔ گویا پورا سراپا ہی خوش خلقی میں ایک سات رنگی دھنک ہے، ایک دلکش قوسِ قُزح ہے۔ ہونٹوں سے نکلنے والے شبد سنیں یا بدن بولی کو محسوس کریں، لگے گا عطر بیز لہریں آپ کو اپنے حصار میں لے رہی ہیں اور آپ سرشار سے ہو رہے ہیں۔

یاد رکھیں! کسی شخصیت کو کردار کا یہ حسن دان کرنے میں قدرت کچھ زیادہ فیاض نہیں۔ یہ اس کا بخل ہے جو لاکھوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے۔ زہے نصیب! میرے ممدوح خدا کی اس خاص عنایت کا استحقاق پانے میں کامران ٹھہرے!

زندگی میں دو تین بار ہی ان کی معیت (ساتھ) نصیب ہوئی۔ تب سے آج تک اس ملاقات کے خوشگوار اثرات کی لپیٹ میں ہوں۔ اخلاق اس قدر بلند ہیں کہ بیٹیوں کے سسرال کے باہمی اختلافات سے اس مردِ درویش نے کبھی کوئی لینا دینا نہیں رکھا۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں ان کے ہمراہ سیہڑوں (چڑیا کا ہم شکل ایک پرندہ) کے شکار کے سلسلے میں کھیتوں کی طرف جا رہا تھا تو رستے میں ناصحانہ انداز سے ایک خاص پس منظر میں زندگی میں آگے بڑھنے کی ترغیب دلانے لگے۔ کسی نے خاندانی حوالے سے کچھ عجب سا کہا تو فرمانے لگے: بیٹا! یہ آپ کے مسائل ہیں۔ یہ آپ ہی کو حل کرنے ہیں۔ میں اس امر میں کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ میرا کہنا صرف اتنا ہے کہ آپ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھیں۔ ذرا نہیں لحاظ کیا کہ نورِ نظر اس خاندان میں ہے اور میں بجا یا بےجا اس کی طرف داری کروں۔ بڑوں کا یہی بڑاپن ہے کہ یہ اپنے تعلقات میں تعصبات کو حائل نہیں ہونے دیتے۔ سامنے بیٹی ہو یا کوئی غیر دونوں کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔ بچوں کے متعلقہ تنازعات میں بھی نصیحتیں اپنے بچوں ہی کو کریں گے۔ ہمارے ساتھ مرحوم بلو بھی تھے۔ خدا انھیں غریقِ رحمت کرے! کردار میں وہ بھی کمال تھا۔

کچھ خبر ہے! یہ کون لوگ ہیں جو اپنے رویوں میں اتنے اونچے درجے پہ فائز ہیں! یہ وہ ہیں اقبال جن کے متعلق کہہ گئے: خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے!

یقیناً خدا نے اپنی مقدس کتاب میں ایسوں ہی کے بارے میں کہا ہے:

"یاَ اٴَیَّتُھَا النَّفُسُ الُمُطُمَئِنَّةّ ارُجِعِی اِٴلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرُضِیَّةً"

"اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی"۔

مجھے امید ہے حاجی عبدالستار صاحب جیسے لوگ ہی ہیں، موت کے بعد فرشتے جن کی روح ایک پاکیزہ لباس میں لپیٹے آسمانوں کی طرف محوِ پرواز ہوں گے۔ میرا گمان ہے اور قوی گمان ہے کہ انھی پاکیزہ ہستیوں کی روحیں فضاؤں کو معطر کرتی آسمانوں کو چڑھتی اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں۔

ان کی طرح کے بہت کم لوگ زندگی میں آتے ہیں۔ میں اپنی زندگی میں بس دو چار سے ہی واقف ہوں۔ انڈیا کے مہان سنگر محمد عزیز اور لتا منگیشکر ان میں سے ایک ہیں۔

لتا جی اس قدر معصوم تھی کہ ایک بار انٹرویو میں مرحومہ نے کہا کہ فلم انڈسٹری میں بہت سے لوگوں نے میرے پیسے کھائے ہیں۔ دراصل مجھے پیسے مانگنے نہیں آتے تھے۔ میں گانا گا کر یوں ہی چلی جاتی تھی۔ آپ کبھی اس کے انٹرویوز کو غور سے سنیں اور ساتھ ہی اس کے لہجے اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگائیں۔ ایک پانچ سال کی معصوم سی بچی کا گمان ہوگا۔ بہت اجلے کردار کی مالک تھی لتا۔ ساری زندگی اس نے شرافت کی چادر اوڑھے رکھی۔

ایک بار دورانِ انٹرویو سوال ہوا کہ اگر دوبارہ جنم ملے تو؟ کہا کہ دوبارہ جنم نہ ہی ملے تو بہتر ہے اور اگر ملا، تو میں لتا منگیشکر بننا پسند نہیں کروں گی۔ سوال کرنے والے کو غیر متوقع جواب سے جھٹکا سا لگا۔ پوچھا: کیوں؟ کہا کہ لتا کی جو تکلیفیں ہیں، وہ لتا ہی جانتی ہے۔ تصور کریں! انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں نے اسے کس قدر اذیتیں دی ہوں گی۔ کیسے کیسے ستم توڑے ہوں گے اس پہ۔ صابرہ بن کر اپنی جان پہ سب کچھ سہہ گئی۔ ہمیں بس ظاہر میں لتا کی شہرت اور دولت کی چمک نظر آتی ہے۔ اس کے پیچھے جو ظلمتیں اور تاریکیاں چھپی ہیں، ہمیں وہ نظر نہیں آتیں۔ بیچاری دل میں بہتیرے غم لیے گزر گئی۔ ںھگوان اسے شانتی دے!

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari