Thursday, 11 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Kya Takhne Nange Rakhna Sunnat Hai?

Kya Takhne Nange Rakhna Sunnat Hai?

کیا ٹخنے ننگے رکھنا سنت ہے؟

پاکستان میں صرف مکتبِ اہل حدیث کا ہمیشہ سے شعار رہا ہے کہ وہ اپنی شلواروں کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر رکھتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں، جس میں رسالت مآب ﷺ نے فرمایا: جس نے تکبر کرتے ہوئے اپنے پائنچے ٹخنوں سے اوپر رکھے، اللہ تعالی روز قیامت اس کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔

مکتبِ اہل سنت المعروف بریلوی حضرات اس طریق کے شدید ناقد رہے ہیں۔ یہ تنقید کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں تھی، سراسر فرقہ وارانہ مخالفت پہ مبنی تھی۔ مولانا اکرم رضوی مرحوم اس پہ ایک بازاری سی پھبتی کسا کرتے تھے: "گردناں موٹیاں تے ستھناں چھوٹیاں" یہ تنقید، یہ جرح دراصل فرقہ پرستانہ تناظر میں ہوتی تھی۔ اب حالات کا پھیر دیکھیں۔ سبز پگڑی والے یعنی دعوتِ اسلامی والے بھی گٹے ننگے رکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ خیر، مکتبِ اہلحدیث سے منسلک ہونے کے ناطے سے میں بھی اس طریقے پہ کاربند رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب بڑوں کی طرح میں بھی حدیث کے ظاہری لفظوں کو ہی اہم اور حتمی سمجھتا تھا۔ جیسے ایک حدیث ہے کہ یومِ قیامت سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔ اس کے ظاہری لفظوں سے یہی مفہوم نکلتا ہے کہ تصویر حرام ہے۔ حالانکہ اس سے مراد وہ مصور ہے، جو تصویر کو ایک معبود کے طور پر بنائے، یعنی جس تصویر کی عبادت ہوگی، اس تصویر بنانے والے کو عذاب ہوگا۔

مجھ پہ خدا کا ہمیشہ سے ایک کرم رہا کہ میں مطالعے کا شوقین تھا۔ پرائمری سکول کے زمانے میں ٹارزن اور عمرو عیار کی کہانیاں بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ اخبارات کے کالمز مجھے بہت بھاتے ہیں۔ میں خبروں سے زیادہ تجزیے شوق سے پڑھتا ہوں۔ یہ تسلسل پچھلے 22 سال سے جاری ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ سوچنے کی تھوڑی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ اسی صلاحیت کے زیرِ اثر اور جاوید احمد غامدی صاحب کو پڑھ اور سن کر مجھ پہ کھلا کہ اس روایت سے جو مفہوم اہلِ حدیث حضرات نے لیا ہے، وہ غلط ہے۔ اس کا پس منظر کچھ اور ہے، جس کی وجہ سے پیغمبر ﷺ کو اپنے اصحاب کو حکم دینا پڑا کہ تم اپنے شلواریں اپنے ٹخنوں سے اوپر رکھو۔

پس منظر یہ ہے کہ اس دور میں کفار امرا خود سے کمتروں کو اپنی امارت کی شان دکھانے اور غربا پہ اپنی دولت کا رعب جمانے کے لیے اپنے تہمد کو کپڑا زیادہ لگواتے اور پھر اسے ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر چلتے۔ یہ ایک قسم کا تکبر تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ چونکہ شرک کی طرح تکبر کی ہر قسم مٹانے کے لیے آئے تھے، سو اس قبیح رسم کے رد عمل میں آپ ﷺ نے حکم جاری کیا ٹخنے ننگے رکھنے کا۔ پھر حدیث کے الفاظ میں "خیلاء" کا لفظ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ کپڑوں کا لٹکانا غرور کے ساتھ مشروط ہے، یعنی جو بندہ تکبر کی نیت سے لٹکاتا ہے، وہ اس وعید کی زد میں آئے گا، خدا اس کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ رہا وہ شخص جس کا ایسا کوئی خیال نہیں، تو وہ اگر کپڑا لٹکا لے تو خیر ہے۔ "خیلاء" کا لفظ بتاتا ہے کہ کپڑے لٹکانے والوں میں سے وہی گنہگار ہیں، جو مغرور ہیں۔ جو مغرور نہیں، وہ ٹخنے ڈھک سکتا ہے۔

غرور کسی شکل میں ہو، خدا کو کسی صورت میں گوارا نہیں۔ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر سکتا ہے، مگر مغرور جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

ایک اور بات کہ بلاوجہ کوئی بندہ کوئی کام کرتا ہے بھلا؟ کبھی ایسا ہوا کہ آپ بلا ارادہ ریلوے اسٹیشن پہ جائیں اور لاہور کی ٹکٹ لے کر ٹرین میں سوار ہو جائیں۔ کوئی پوچھے کہ لاہور کس لیے؟ تو آپ کہیں کہ بس ایویں ایں۔ وہ سائل آپ کو کن نظروں سے دیکھے گا! یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی۔

اسی طرح ہر وقت ٹخنے ننگے رکھنے کے لیے اللہ کے نبی بلاوجہ کوئی حکم کیسے دے سکتے ہیں!

ایک اور زاویے سے نیچے کی دو روایات بھی میرے اس موقف کی تائید کرتی ہیں۔ ان میں آپ ﷺ نے کپڑے کو آدھی پنڈلی تک رکھنے کا کہا ہے:

حضرت ابنِ عمرؓ بیان کہتے ہیں کہ میں ایک بار نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرا۔ جبکہ میرے کپڑے میں کچھ ڈھیلا پن تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "عبداللہ! اپنا ازار اونچا کرو"۔

میں نے اونچا کیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: "اور اونچا کرو"۔

میں نے مزید اونچا کر لیا۔ ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں: اس کے بعد میں ہمیشہ ازار کی اونچائی کا خاص خیال رکھتا رہا۔ لوگوں نے پوچھا: کس حد تک؟" ابن عمرؓ نے فرمایا: آدھی پِنڈلی تک۔ (مسلم)

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مسلمان کا ازار (تہبند/کپڑا) آدھی پِنڈلی تک ہونا چاہیے اور آدھی پِنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان رکھنے میں کوئی حرج یا گناہ نہیں۔

لیکن جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ (آگ) میں ہے (ابوداؤد صحیح سند کے ساتھ)

اب ہم عقلی بنیادوں پر اس حدیث کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ٹخنے ننگے رکھنے والوں کی خدمت میں میرا ایک سوال ہے۔ وہ یہ کہ اس حدیث پہ عمل کرکے آپ اپنی آدھی پنڈلیاں ننگی کیوں نہیں رکھتے! کیونکہ سنت تو یہ بھی ہے۔ یہ ایسا بالکل نہیں کریں گے۔ بھلا کیوں! آدھی پنڈلی ننگی رکھ کر بازار میں چلنے سے ایک عجیب اور مضحکہ خیز منظر بن جاتا ہے۔ لوگ حیرت سے دیکھتے ہوئے سوچیں گے کہ یا تو اس بندے کا کپڑا کم تھا یا اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ہو سنت اللہ کے رسول کی اور اس پہ عمل کرنے والا خوبصورت نظر نہ آئے اور لوگ اسے دیوانہ سمجھیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے!

اس پہ ایک لطیفہ بھی ملاحظہ کریں۔ ایک لڑکا شلوار بہت اونچی کیے کمرے میں آیا، جہاں اس کی نانی قرآن مجید پڑھ رہی تھی۔ اس کی نظر دوہتے کی ٹانگوں پہ پڑی تو بولی: "تائیں لا کے آیا ایں!" (دھان کی فصل لگا کر آئے ہو؟) وہ لڑکا خوب ہنسا۔ اگر یہ حدیث مولویوں کے مفہوم کے مطابق ہوتی، تو کیا نانی صاحبہ نواسے پہ طنز کرتیں؟

کوئی اہل حدیث اس حدیث پہ عمل نہیں کرتا، سوائے حافظ سعید کی جماعت مرکز دعوہ والارشاد والوں کے۔ انھوں نے اپنی شناخت اس حدیث کو بنا رکھا ہے۔ ان کے سوا کوئی اہلِ حدیث ایسا کرتا نظر نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ وہ بھی اسے اپنے شعور میں اچھا نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک بھی لوگوں کو اپنی آدھی ننگی پنڈلیاں دکھانا ایک عیب ہے۔ اہلحدیث کی اس فکر سے میرا مقدمہ مضبوط ہو جاتا ہے کہ یہ دین، دینِ فطرت ہے۔ فطرت جسے پسند نہیں کرتی، وہ دین نہیں۔

اس روایت کا ایک اور زاویہ بھی بتاتا ہے کہ ٹخنے ننگے رکھنے کی وجہ صحابہ کو تکبر سے بچانا تھا، جسے کفار کی جانب سے رواج دینے کی کوشش ہو رہی تھی۔ ردعمل کی نفسیات ہی میں آپ ﷺ نے یہ حکم جاری کیا۔ وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ آج کے دور میں محض کپڑا لٹکانے کے جرم میں بندہ آگ میں داخل ہو جائے۔ جس معمولی بات پہ اتنی بڑی سزا ہو، وہ یا تو حدیث نہیں یا پھر اس کا مطلب کچھ اور ہے۔

ویسے بھی اگر انسان دین کے معاملات میں اپنی عقل کا استعمال کرے، تو اس کے بہت سے احکام مولویوں کے بنا ہی سمجھ سکتا ہے۔ جیسے میرے سامنے ایک مارکی (شادی ہال) کے گیٹ کے باہر جب صاحب نے گھوڑوں کے دو مجسمے کھڑے کیے اور ٹھیکیدار نے کہا کہ یہ تو بت ہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ میں نے اسے سجدے تھوڑی کرنے ہیں۔ یہ تو محض نمائش کے لیے، خوبصورتی کے لیے ہیں۔ اس پہ وہ چپ ہوگیا۔

اب آتے ہیں اس مسئلے کی طرف کہ مولوی حضرات ظاہری لفظوں پہ کیوں گئے ہیں۔ جب تک ہم کسی محکمے یا طبقے کا مزاج نہیں سمجھتے، تب تک ہم ٹھیک سے اس کے اقدامات کا، اعمال کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ جیسے ابھی 30 نومبر کو جاوید چودھری صاحب نے تجزیے میں غلطی کی۔ انھوں نے 9 مئی کے حوالے سے لکھا:

"بحران کے ان تین دنوں کے ہیرو جنرل ساحر شمشاد مرزا تھے، یہ اگر استقامت اور خلوص کا مظاہرہ نہ کرتے اور پی ٹی آئی کے جھانسے میں آ جاتے، تو آج صورت حال مختلف ہوتی، آج کے حکمران اس وقت جیل میں چکیاں پیس رہے ہوتے، عمران خان اگلے پانچ برسوں کے لیے وزیراعظم بن چکے ہوتے یا پھر ملک میں مارشل لاء لگ چکا ہوتا اور مئی 2025ء میں انڈیا ہمارا بھرکس نکال چکا ہوتا"۔

یہ تجزیہ فوج کا مزاج اور اس کا سسٹم نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ ماضی میں جب کبھی کسی جنرل نے بغاوت کی کوشش کی، تو اسے سختی سے کچل دیا گیا۔ فوج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بہت مضبوط ہے۔ نیز فوج چیف آف آرمی سٹاف کے نیچے ہوتی ہے، جوائنٹ چیف آف سٹاف کے نیچے نہیں۔ یہ تو ایک نمائشی سا عہدہ ہے۔ تو کیسے ممکن ہے فوج اپنے اصل چیف کو چھوڑ کر ساحر شمشاد صاحب کے پیچھے لگ جاتی۔ ساحر صاحب اگر یہ اقدام کرتے بھی تو کسی نے ان کی سننی نہیں تھی اور نتیجۃََ آج جیل میں ہوتے۔

اسی طرح جب تک ملاؤں کا مزاج سمجھ میں نہیں آئے گا، تب تک ہم ان کی خود ساختہ دینی تشریحات نہیں جان سکتے۔ دراصل معاملہ ہے ظواہر کا۔ اہل مذہب ظواہر کے دلدادہ ہیں۔ مذہب کی ظاہری رسوم ہی ان کا حوالہ ہے، ان کی پہچان ہے۔ باطنی طور پر تو یہ دنیا داروں کی طرح ہیں۔ کیسے؟ یہ پھر کبھی سہی۔ دور ڈھول بج رہا ہو، تو سہانا لگتا ہے۔ جب کبھی آپ ان کے نزدیک ہوں گے، تو آپ "لاحول" پڑھ اٹھیں گے۔ یہ داڑھی، پگڑی، حج، عمرہ، نماز، مسواک، دائیں ہاتھ سے چیز پکڑنا، نعتیہ محفلیں، جلسے، جلوس وغیرہ یہ تمام چیزیں ظاہری رسموں کے گرد گھومتی ہیں۔ تو ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھنے کا تعلق بھی ظاہر سے ہے۔ باقی رہی عقل، تو یہ ان کے پاس ہے، مگر وہ خیرات اکٹھی کرنے اور لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلوانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن اور احادیث کو عقلی بنیادوں پہ سمجھنے کے لیے ان کے پاس دماغ سرے سے ہے ہی نہیں۔ آج الحمدللہ میں نماز اور نماز کے علاوہ دونوں حالتوں میں اپنے ٹخنے ننگے نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ حدیث میری سمجھ میں آ گئی ہے۔

مذہب کو سمجھنے کے باب میں ایک بات پلے باندھ لیں کہ پیغمبر ﷺ آج ہمارے سامنے موجود نہیں کہ وہ ہمیں ایک حکم دیں اور ہم فوراً اس پہ عمل کریں۔ آپ کی تمام روایات ہم تک لوگوں نے اپنے فہم کے مطابق پہنچائی ہیں۔ تو اب ہم انھیں سمجھ کر ہی ان پہ عمل پیرا ہوں گے۔ مذہب صرف پیغمبر بیان کرتا ہے اور صحابہ سمیت بعد والے اس کی تشریح کرتے ہیں۔ وہ تشریح حدیث کے عین مطابق بھی ہو سکتی ہے اور عین مخالف بھی۔ جبھی تو اتنے فرقے معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ میں نے بھی جو یہ آرٹیکل لکھا ہے، یہ مذہب نہیں، مذہب کی تشریح ہے۔ خود صحابہ کو بھی پیغمبر ﷺ کی بات سمجھنے میں یہی معاملہ بعض اوقات پیش آ جاتا تھا۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

Check Also

Foji Incubator Aur Zulfiqar Ali Bhutto

By Muhammad Aamir Hussaini