Kisi Mazhabi Sargarmi Ki Waja Se Logon Ko Takleef Na Ho
کسی مذہبی سرگرمی کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف نہ ہو

حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ معاذؓ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹتے تو ہماری امامت کرتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک رات نماز دیر سے پڑھائی اور ایک روایت میں ہے: عشاء دیر سے پڑھائی۔ چنانچہ معاذ بن جبلؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآءت شروع کر دی تو ان کی قوم میں سے ایک شخص نے جماعت سے الگ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی۔ لوگ کہنے لگے: اے فلاں! تم نے منافقت کی ہے۔ اس نے کہا: میں نے منافقت نہیں کی ہے۔
پھر وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرتے ہیں۔ ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) معاذ نے آ کر ہماری امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآءت شروع کر دی (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا: "اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے؟ فلاں اور فلاں سورۃ پڑھا کرو"۔ ابوزبیر نے کہا کہ (آپ ﷺ نے فرمایا): "تم «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» پڑھا کرو" (سنن ابی داود)
نوٹ: اس حدیث میں تین چیزیں بہت نوٹ کرنے کی ہیں: 1-مقتدی نے امام کے پیچھے نہیں، اکیلے نماز پڑھی۔ کیونکہ وہ لمبی نماز پڑھا کے لوگوں کو تنگ کر رہا تھا۔
ایسی جرات آج کوئی کسی مسجد میں دکھائے، تو قوم اس کا جینا حرام کر دے گی۔
2- قوم نے اس کے فعل کو گستاخی جان کر اس پہ منافقت کا فتویٰ صادر کیا۔ مگر آپ ﷺ نے ان کے فتوے کو کالعدم قرار دیا اور امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے والے کو درست جانا۔
3- پیغمبر ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرمایا کہ تو فتنہ پیدا کر رہا ہے لوگوں کے بیچ میں۔ حالانکہ ہماری نظروں میں آپ ایک بہت نیک کام قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔
آج کسی کے دینی جلسے، دینی جلوس یا کسی دینی تقریب کی وجہ سے کسی فرد یا محلے کو تکلیف ہو اور وہ اس کا اظہار کر بیٹھے تو مولویوں اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے سیدھا فتویٰ آئے گا کہ یہ بندہ یا یہ لوگ دین کے دشمن ہیں، رسول کے دشمن ہیں، یہودی لابی ہے، منکر ہیں وغیرہ وغیرہ۔

