Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Kisi Ki Jaiz Tareef Karna Seekhain

Kisi Ki Jaiz Tareef Karna Seekhain

کسی کی جائز تعریف کرنا سیکھیں

تعریف کسے پسند نہیں۔ کوئی کند ذہن ہو یا ذہین، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، کوئی مزدور ہو یا پروفیسر، اچھا ہو یا برا، ہر کوئی اپنی تعریف سن کر جہاں خوش ہوتا ہے وہاں اسے تعریف کرنے والا بھی اچھا لگتا ہے۔ ہمارا مقصد کسی کی جھوٹی تعریف کرنا نہیں، کسی کی خوشامد کرنا نہیں، بلکہ وہ تعریف، جو جائز ہو، جو کسی کا حق بنتا ہو۔ مثلاََ اگر کسی نے بھلا لباس پہنا ہے، تو دل کھول کر اسے سراہیں۔ اسے کہیں کہ یہ لباس آپ پہ بہت جچ رہا ہے۔ اگر کسی کا جوتا خوبصورت ہے، تو اس کے جوتے کی تعریف کریں۔ کسی کے بالوں کو اسٹائل آپ کو پسند آئے، تو اس کی تحسین کریں۔ اگر کسی کے منہ سے کوئی جچا تلا جملہ نکلے، تو اسے داد دیں، اس فقرے پہ واہ کہیں۔

یاد آیا انڈین سنگر محمد عزیز مرحوم جب کبھی اونچے سُر میں گاتے اور کمال گاتے، تو لتا جی بے ساختہ واہ کہتیں۔

اسی طرح اگر کوئی صاف ستھرا نظر آئے تو اسے سراہیں۔ یہ سراہنا جہاں آپ کے بڑے پن کا ثبوت ہے، وہاں یہ اگلے بندے کے چہرے پہ بھی مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے۔

اعلی ظرف بندہ اچھی چیز کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب مرحوم ایسی ہی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کے سامنے کوئی اچھا شعر آتا، تو جی کھول کر داد دیتے۔ ایک بار حکیم مومن خان مومن کا یہ شعر آیا:

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

تو غالب نے پتا ہے کیا کہا! حکیم صاحب میرا سارا دیوان لے لے اور مجھے فقط یہ شعر دے دے۔

یہ تعریف ہی ہے جو اس بندے کے دل میں آپ کی محبت پیدا کرے گی۔ اس سے وہ آپ کو توجہ کے لائق سمجھے گا، آپ کو اچھی نظروں سے دیکھے گا۔ اگر کوئی بندہ ہمارے ساتھ کوئی نیکی کرتا ہے تو کیا حرج ہے اس کی تعریف کرنے میں۔ اس کے منہ پہ اس کا شکریہ ادا کریں اور اس کی غیر موجودگی میں اوروں سے بھی اس کا ذکر کریں۔ غیر کے منہ سے سنی یہ تعریف بہت ہی بھلی لگتی ہے۔ بندہ خوشی سے سرشار ہو جاتا ہے۔

الغرض، جس چیز میں خوبصورتی ہو جس کردار میں بھلائی ہو، اس کی تعریف کرنی چاہیے۔ ایک بار قاسم علی شاہ صاحب کو ایک صاحب نے روک کر پوچھا: جناب! یہ پرفیوم آپ نے کون سا لگایا ہے؟ بہت ہی اچھا ہے۔ قاسم علی شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ سن کر مجھے اچھا لگا۔

میں جس حجام سے بال کٹواتا ہوں، اس کہ مسکراہٹ بہت کھلی کھلی اور بھلی لگتی ہے۔ جب ہنستا ہے تو چہرہ کھلے گلاب کی طرح ہو جاتا ہے۔ بعض چہروں پہ مسکراہٹ کا بہت جچنا خدائی عطیہ ہے۔ ہر کسی کی کے چہرے کی ہنسی یا مسکراہٹ اتنی توجہ نہیں کھینچتی، اتنی جاذبِ نظر نہیں ہوتی۔ خیر، ایک دن میں نے اس سے ذکر کیا تو اس کے چہرے کے تاثرات میں میرے لیے پسندیدگی تھی، شکریے کا احساس تھا۔ خوش ہوگیا یہ تعریف سن کر۔ اگر میں پہلے اس کے لیے عام تھا، تو اس کے بعد خاص ہوگیا۔ پس آپ کو کوئی چیز اچھی لگے تو کنجوسی سے کام نہ لیں، اسے سراہیں۔ اس سے دونوں خوش بخت ہوں گے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam