Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Khubsurat Larke Se Dosti, Mazhab Aur Aqal Ki Ru Se

Khubsurat Larke Se Dosti, Mazhab Aur Aqal Ki Ru Se

خوبصورت لڑکے سے دوستی، مذہب اور عقل کی رُو سے

خوبصورت لڑکے سے دوستی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ایسا اقدام دامن پہ داغ لگا دیتا ہے۔ اسے گلے کا طوق سمجھیے، جی کا یہ جنجال ہے۔ یہ ایسی آزمائش ہے جس میں کسی کا سرخرو ہونا ممکن نہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ایک بار فرمایا تھا: شیطان انسانی جسم میں یوں گردش کرتا ہے، جیسے خون گردش کرتا ہے۔

زید (فرضی نام) سے میری نیم سی دوستی تھی۔ اس کے ساتھ کبھی کبھار کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ مدرسے میں ایک خاص شہر کا ایک بکر (فرضی نام) نامی لڑکا بھی تھا۔ عمر یہی کوئی 14 یا 15 سال ہوگی۔ جسم اس کا عین لڑکیوں کی طرح تھا۔ ممی ڈیڈی ماحول میں پلا بڑھا، برگر فیملی کا پروردہ، گورا، چٹا سفید۔ تھا حافظ قرآن۔

ایک دن زید کے جی میں آئی کہ اس بار اپنے شہر کی ایک مسجد میں نماز تراویح کے لیے بکر کو لے چلتا ہوں۔ اس نے اس سے بات کی تو وہ راضی ہوگیا۔ رمضان کے قریب دونوں نے رختِ سفر باندھا اور چلے گئے۔ رمضان میں قرآنِ پاک سنانے کے لیے اس نے انتظامیہ کے سامنے اسے پیش کیا تو انھوں نے اجازت دے دی۔ شاید اس سے پہلے ہی وہ فون پہ اجازت لے چکا تھا۔ سو بکرنے تراویح پڑھانا شروع کر دی۔ اب دائیں بائیں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اس بات کی کہ یہ خوبصورت سا ممی ڈیڈی ٹائپ لڑکا کہاں سے لے آیا ہے۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ کھسر پھسر زید تک بھی پہنچ گئی۔

مجھے کہتا ہے کہ یار! اس دن مجھے پتا چلا کہ میں کتنی بڑی غلطی کر چکا ہوں۔ پورا رمضان میں شرمندہ شرمندہ پھرتا رہا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میں لوگوں کی نظروں کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔ اس سے پہلے میں سب کے ساتھ گھل مل کر رہتا تھا۔ اب سب سے پرے پرے رہنے لگا۔ دل میں سوچا کہ جلد رمضان ختم ہو اور اس لڑکے سے جلد میری جان چھوٹے۔

جہاں تک میں جانتا تھا اس کی نیت میں ایسا کوئی فتور نہیں تھا اس لڑکے کے حوالے سے۔ زید بڑا جہاندیدہ تھا۔ عمر بھی اس کی تھوڑی نہیں تھی۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا اس نے۔ مجھے کہتا ہے کہ یار! مجھے اپنے بھائیوں سے بھی سننی پڑیں کہ تو اس لڑکے کو کیوں لایا! خوامخواہ مصیبت اپنے سر لے لی۔

اس واقعے سے سبق ملتا ہے کہ اگر کسی لڑکے کو داڑھی مونچھ نہ آئی ہو تو اس سے دوستی یا تعلق نہیں رکھنا چاہیے اور کوئی زیادہ خوبصورت، غیر معمولی حسین ہو تو پھر تو ملنے گلنے سے زیادہ گریز کرنا چاہیے۔ کوئی ضروری بات ہو، تو سب کے سامنے کریں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میرا دل صاف ہے مجھے لوگوں کی کوئی پروا نہیں، تو پھر اس کا حال اس شخص کا سا ہے جو جسم تو صاف رکھتا ہے، مگر کپڑے اس کے گندے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ پیغمبرﷺ سے بڑھ کے کس کی نیت صاف ہو سکتی ہے! آپ کا قلبِ مبارک تو فرشتوں نے اللہ کے حکم سے بچپن ہی میں دھو ڈالا تھا۔ یہ بھی آپ کا معجزہ تھا کہ شیطان آپ کے دل میں کوئی وسوسہ نہیں ڈال سکتا تھا۔ جب آپ اپنے ظاہر کے معاملے میں حساس تھے، تو ہمیں تو کہیں زیادہ ہونا چاہیے۔

ام المؤمنین صفیہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ معتکف تھے تو میں رات کو ملاقات کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ سے میں نے بات چیت کی۔ پھر میں کھڑی ہو کر چلنے لگی، تو آپ بھی مجھے واپس کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں دو انصاری وہاں سے گزرے۔ وہ آپ کو دیکھ کر تیزی سے نکلنے لگے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: "ٹھہرو! یہ صفیہ بنت حییی (میری بیوی) ہے (ایسا نہ ہو کہ تمہیں کوئی غلط فہمی ہو جائے)" وہ بولے: سبحان اللہ! اللہ کے رسول! (آپ کے متعلق ایسی بدگمانی ہو ہی نہیں سکتی) آپ نے فرمایا: "شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کچھ (یا کہا: کوئی شر) نہ ڈال دے"۔ (سنن ابي داود)

پس حسن سے دوستی نری حماقت ہے۔ ایسے بندے پہ لوگوں کی انگلیاں اٹھیں گی، اس کے دامن پہ چھینٹے پڑیں گے۔ پس لوگوں کی نیتوں پہ حملہ کرنے کی بجائے اس بندے کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، اسے خود کا احتساب کرنا چاہیے۔ کیوں ہم لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع دیں! کیا اللہ نے ہمیں عقل نہیں دے رکھی!

ویسے سوئے ظن سے ہمیں بچنا چاہیے، کسی کے متعلق بلا وجہ کے شبہات کو ذہن میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ مگر زیرِ نظر مضمون میں تصویر کے دوسرے رخ کی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کی بری فطرت کو سامنے رکھ کر اپنے کردار کی تطہیر کے لیے، اس کی پاکیزگی کے لیے حکمتِ عملی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

تحریر یا تقریر میں کبھی تصویر کا ایک رخ دکھلایا جاتا ہے تو کبھی دوسرا۔ یاد آیا قرآن پاک میں ایک جگہ اللہ فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔ بےشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے"۔

یہاں تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ یعنی خود کو مشکوک ٹھہرانا ناسمجھداری ہے تو بلا دلیل کسی کے کردار پہ دھبا لگانا بھی کوئی کارِخیر نہیں۔ یہ بھی صریح گناہ کا کام ہے۔ کسی کے ساتھ امرد (نوخیز یا نوجوان لڑکا) دیکھتے ہی کہہ اٹھنا کہ یہ بچوں کا شوقین ہے۔

خیر، بیچ میں یہ جملہ ہائے معترضہ آ گئے۔ نفسِ مضمون سے ان کا تعلق نہیں۔ بات وہی جو اوپر بیان ہوئی کہ اپنے آپ کو شکوک وشبہات کے دائرے میں نہ لے آئیں۔

ایسے نکات (دوسرا رخ) تجزیے اور تبصرے میں مدد دیتے ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam