Khair Ya Shar Ko Kabhi Haqeer Na Samjhen
خیر یا شر کو کبھی حقیر نہ سمجھیں

قطعِ نظر اس سے کہ خیر یا شر اپنی ذات میں چھوٹا ہے یا بڑا، حیثیت دونوں کی ایک ہی ہے، اثرات دونوں ایک ہی سے رکھتے ہیں۔ کبھی معمولی خیر کسی بڑی کامرانی کا نقطۂ آغاز ثابت ہوتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حقیر سا شر انسان کی زندگی کی ایسی کایا پلٹ دیتا ہے کہ سوائے خسارے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ پس خیر کو کبھی کم سمجھیں اور نہ شر ہی کو کبھی چھوٹا جانیں۔ بصورتِ دیگر زندگی کی گاڑی فراز سے نشیب کی طرف جا سکتی ہے۔
یاد آیا کچھ عرصہ پہلے جاوید چودھری صاحب نے اپنے ایک کالم میں ایک قصاب کا ذکر کیا تھا، جس نے جرمن زبان سیکھی تھی۔ پھر ایک دن ایک جرمن اس سے گوشت لینے آیا تو اسے پتہ چلا کہ یہ جرمنی زبان بھی جانتا ہے۔ اس نے اسے ترغیب دی کہ تو گوشت کا یہی کام ہمارے ملک جرمنی آ کے کر۔ اس نے اسے باہر جانے کا طریقہ بھی سمجھایا۔ یوں تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ قصائی جرمنی پہنچ گیا۔ اس نے خوب محنت کی اور یوں ایک دن بڑا بزنس مین بن گیا۔ یہ تھا معمولی خیر کو معمولی نہ جاننے کا نتیجہ۔
اس کے مقابلے میں شر بھی اسی نوع کی نفسیات اور اثرات رکھتا ہے اپنی ذات میں۔ اسے معمولی جاننے والا بعض اوقات زندگی بھر کے روگ پال لیتا ہے، اس کی ہستی بستی زندگی بےبسی کی تصویر بن جاتی ہے۔ اس کے ثبوت میں ہمارے بچپن کا ایک سچا واقعہ ہے۔
احسان بھائی کی حویلی میں کرکٹ کھیلی جا رہی تھی۔ حیران کن طور پر 4 سکورز پہ ایک ٹیم آؤٹ ہوگئی۔ اب انھوں نے رولا ڈال دیا کہ ہمارے سکورز 5 ہیں۔ دوسری طرف سے پاجی ساجد صاحب بولے: 6 کر لو، 7 کر لو۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ غضب کا یہ اعتماد اس باعث تھا کہ سکور بہت معمولی تھا۔ اسے آپ مخالف ٹیم کا شر بھی کہہ سکتے ہیں۔ عموماً سکور 100 کے قریب بنتا تھا۔
حالات کا پھیر دیکھیں۔ جب اپنی باری آئی تو ساری ٹیم 3 سکورز پہ آؤٹ ہوگئی۔ فیر سارے ویکھن، اے بنیا کی اے۔ ساجد صاحب شرمندہ سے ہو گئے۔ دل میں سوچا کہ مینوں تاں مان ای بڑا سی۔ 6 بنا لو، 7 بنا لو۔ اب دوسری طرف سے طعنے دیے جانے لگے، پھبتیاں کسی جانے لگیں یہ کہہ کر کہ 6 کر لو، 7 کر لو۔
بڑا مزے کا ماحول بن گیا۔ ایک طرف سے ہا ہا ہا، واہ واہ واہ کی آوازیں تھیں اور دوسری طرف سے آہ آہ آہ کی آوازیں تھیں۔ 4 رنز، یعنی شر کو معمولی سمجھنے والی ٹیم کے چہروں پہ خجالت تھی۔ شرمندگی کے مارے دوسروں سے اکھیاں بھی نہیں ملا پا رہے تھے۔
نوٹ: بظاہر یہ ایک لطیفہ نما سچا واقعہ ہے مگر، اپنے اندر یہ ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ سبق ہے ہمارے لیے بہت گہرا۔ ایک دیا سلائی پورا گھر جلا دیتی ہے۔
یاد آیا میٹرک میں کیمسٹری میں ایک مریل سا سوال یہ سوچ کر یاد نہ کیا کہ اینے کتھوں آنا ایں! امتحان میں وہی نامراد آ گیا۔ پھر کفِ افسوس ملنا پڑا۔

