Kasur Ke Do Bhaiyon Ke Qatal Mein Chupa Sabaq
قصور کے دو بھائیوں کے قتل میں چھپا سبق

خبر کے مطابق دو بھائی راشد اور واجد لاہور سے اپنے گھر آ رہے تھے۔ انھوں نے راستے میں رائیونڈ کے ساتھ ایک گاؤں بھمبھ (جائے وقوعہ) سے ایک درجن کیلے خریدے جو 130 روپے کے تھے۔ ان کے پاس ایک نوٹ سو والا تھا اور باقی 5 ہزار والے تھے۔ فروٹ والے کے پاس پانچ ہزار کا کھلا نہیں تھا۔ انھوں فروٹ والے سے کہا کہ ہمارے پاس سو روپے ہیں۔ یہ لے لو یا اپنے باقی 30 روپے کے کیلے واپس نکال لو۔ اس بات پر تکرار ہوئی اور فروٹ والا گالیاں دینے لگا۔
یوں جھگڑا بڑھ گیا اور فروٹ والے نے اپنے دوست کو فون کر دیا کہ یہاں لڑائی ہوگئی ہے۔ فروٹ والے کے دوست نزدیک ہی کرکٹ کھیل رہے تھے، جو سب کے سب اکٹھے ہو کر آ گئے اور بنا تحقیق ان دونوں بھائیوں کو مل کر مارنے لگے۔ دونوں بھائی شدید زخمی ہوئے جس پر انھیں قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ دونوں میں سے چھوٹا بھائی زخموں کی تاب نہ لا سکا۔ اس نے ہسپتال پہنچتے ہی دم توڑ دیا جبکہ بڑا بھائی جسے آخر میں بیٹ لگا، کومے کی حالت میں تھا، وہ بھی جان کی بازی ہار گیا۔
بات اتنی سادہ نہیں لگتی، جتنی بیان ہوئی ہے۔ ان کے بیچ میں ضرور تکرار ہوئی تھی۔ کیلے والا بضد تھا کہ شاپر میں جتنے کیلے ڈالے ہیں، وہ تمھیں لینے پڑیں گے اور 5 ہزار کا چینج بھی تمھیں ہی لانا ہوگا۔ دونوں بھائی بھی انا کا شکار ہو گئے۔ انھوں نے اسے اپنی عزتِ نفس کا مسئلہ بنا لیا۔ اب انا بمقابلہ انا ہے۔ یہیں سے تو تو میں میں شروع ہوئی، جو دونوں بھائیوں کے قتل پر منتج ہوئی۔
ایک بات یاد رکھیں! یہ جتنے ریڑھیوں والے ہوتے ہیں، یہ اکثر چٹے ان پڑھ اور بدتمیز قسم کے ہوتے ہیں۔ سینکڑوں میں چند ایک مہذب ہوں تو ہوں، وگرنہ ہوتے یہ بدلحاظ ہیں۔ اس لیے ان سے کبھی الجھنا نہیں چاہیے۔ خاص کر تب، جب یہ ہتھے سے اکھڑ جائیں اور آپ کو لگے کہ اب یہ مرنے مارنے پہ تل چکے ہیں۔
ضروری نہیں ریڑھی والا ہو، اس کی جگہ پہ اسی طرح کا کوئی اور بندہ بھی ہو سکتا ہے، جس سے آپ کا بھاؤ تاؤ ہو یا کوئی ڈیل یا لین دین دین کا کوئی معاملہ ہو۔ پہلے تو اس سے شائستگی سے بات کریں۔ اگر ایک قسم کا ہو تو اس سے بحث بند کر دیں۔ بڑے طریقے سے، بڑی خوش اسلوبی سے دور ہو جائیں۔ اگر اللہ نے آپ کو عقل دی ہے، آپ باشعور ہیں، تو ایسوں سے بحث بنتی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جاہل ہوتے ہیں۔ ایسے بےمغز لوگوں کے بارے میں قرآنِ مجید نے بڑی عمدہ اصطلاح استعمال کی ہے: "قالوا سلاما" یعنی جب کوئی جاہل عباد الرحمٰن سے مخاطب ہو، تو وہ سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ وہ ناسمجھوں سے جھگڑا نہیں کرتے۔ اللہ کے بندوں کی یہ بھی نشانی ہوتی ہے۔
یہاں ایک بڑا لطیف اور باریک نکتہ ہے۔ ناسمجھ سے اپنی بات منوانا دیوار سے سر پھوڑنے کے مترادف ہے۔ ایک بندے نے اپنے دماغ کے سارے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ وہ کیوں آپ کی بات سنے گا! ایسوں کے لیے اردو میں کہاوت ہے: بھینس کے آگے بین بجانا۔ لہٰذا اگر آپ سمجھدار ہیں تو ایسے بندے سے فوراً کنی کترا کر آگے بڑھ جائیں۔ وہ جو کہتا ہے، مان لیں۔ اگر کیلے شاپر میں پڑ چکے ہیں یا فروٹ تل چکا ہے اور ریڑھی والا تلا بیٹھا ہے اس بات پر کہ یہ چیز اب آپ کو لینی پڑے گی، تو لے لیں۔ لے لینے کا اقدام آپ کی سمجھ داری پہ مبنی ہے۔ صبح سے شام تک بہت ٹیڑھوں سے واسطہ پڑتا ہے ہر کسی کا۔ سو انھیں برداشت کرنا سیکھیں۔
صرف ریڑھی والے ہی نہیں، ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی اکثر ایسوں ہی سے واسطہ پڑتا ہے سبھی کا۔ اگر آپ کرایہ فکس کروائے بغیر بس میں بیٹھ گئے ہیں اور وہ کرایہ کم نہ کرنے پہ تلا ہے یا تھوڑا زیادہ مانگ رہا ہے، تو دے دیں۔ اگر وہ سواریاں زیادہ بٹھانے کے لالچ میں کسی جگہ پہ زیادہ دیر تک رکتا ہے، تو اس سے تنازع مول نہ لیں۔ آپ کے کہنے سے وہ گاڑی نہیں چلائے گا۔ اگر جلدی ہے تو اس سے بقایا کرایہ مانگیں اور اتر کر کسی اور گاڑی میں بیٹھ جائیں۔
پاکستان میں یوں بھی انتہا پسندی بہت بڑھ گئی ہے۔ رویوں میں شدت بہت زیادہ آ گئی ہے۔ پہلے ہم مذہبی تفرقہ بازی کا رونا روتے تھے۔ اب خیر سے سیاسی تفرقہ بازی نے بھی سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر طرف حیوانیت بکھری پڑی ہے۔ بندہ خود کو درندوں میں گھرا محسوس کرتا ہے۔ قوتِ برداشت رکھے بغیر اب جینا محال ہے اس ملک میں۔ جنھوں نے قوم کی اخلاقیات کا یہ حشر کیا ہے وہ مزے میں ہیں۔ دنیا کی ہر نعمت ان کے پاس ہے۔ میرے خیال میں بحث کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہیے۔
سوچنے کی بات ہے، دونوں بھائی کیوں بے موت مارے گئے! اپنی ناسمجھی کی وجہ سے۔ اگر وہ بہادری دکھا رہے تھے کیلے والے کے آگے، تو یہ بہادری کوئی کام نہیں آئی ان کے۔ خود بھی جان سے گئے اور گھر والوں کو بھی جیتے جی مار گئے۔ کیلے والے کا کیا ہے! وہ تو جاہل ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ ہر قسم کے احساس سے عاری ہے۔ ایسوں کو حشرات الارض سمجھیں۔ کیڑے مکوڑے ہیں، جو پیدا ہوئے، کھایا پیا اور مر گئے۔ قرآن کی اصطلاح میں"صم بکم عمی" بہرے، گونگے، اندھے۔
یاد آیا ایک بار معروف کالم نگار و اینکر پرسن جاوید چودھری صاحب کی گاڑی پہ کسی اوباش نے زور سے ڈنڈا مار کر اس کا شیشہ وغیرہ توڑ دیا۔ چودھری صاحب نے اس کی ذہنی کیفیت دیکھی اور اسے کچھ نہیں کہا۔ اسی طرح جب تحریک لبیک والوں نے سڑکیں بلاک کیں تو جاوید چودھری صاحب کی، گاڑی لاہور میں کسی مقام پر پھنس گئی۔ آپ نے گاڑی گزارنی چاہی تو تحریک لبیک کے ایک لڑکے نے آپ سے بدتمیزی کی۔
جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ میری شخصیت کرچی کرچی ہوگئی۔ ظاہر ہے جو بندہ دنیا کے 110 ملک دیکھ چکا ہو، ایک مزدور سے ملک کے وزیراعظم اور آرمی چیف اور بڑے بڑے ارب پتیوں سے اس کی ملاقاتیں رہی ہوں۔ رنگ رنگ کا بندہ اس کی دنیا میں آیا ہو، خوبصورت شکل، خوبصورت عقل اور صحت مند جسم رکھتا ہو، ایک دنیا کو اس نے اپنے علم سے متاثر کیا ہو، تو یہ بیہودگی تو اسے توڑ کر رکھ دے گی۔ مگر آپ اس سے الجھے نہیں، اس سے ہاتھا پائی نہیں کی۔ خاموشی سے سر جھکایا، اس کی بدتمیزی کا تلخ گھونٹ پیا اور واپس کار میں آ بیٹھے۔ جہل کے مقابلے میں یہی ردعمل ایک پڑھے لکھے کی نشانی ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک اس کی زندگی بامعنی ہے۔ جبکہ یہی زندگی ایک جاہل کے نزدیک بے معنی ہوتی ہے۔
دونوں بھائیوں کے لیے بہتر تھا پیسے کہیں سے تڑوا لاتے اور اسے دے کر اپنی جند چھڑاتے۔ "قالوا سلاما" کا یہی مطلب ہے کہ بحث میں نہ پڑو اور کسی طرح اپنی جان چھڑاؤ۔
اس سے یہ سبق بھی ملا کہ سفر کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ آپ کی جیب میں ٹوٹے پیسے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں بڑے نوٹوں کو چھوٹے نوٹوں میں بدلوائیں۔ ایک تو دورانِ سفر جعلی اور پھٹے نوٹ زیادہ چلتے ہیں اور دوسرے کنڈیکٹر حضرات اکثر بقایا دیر سے دیتے ہیں۔ بندے کو الجھن رہتی ہے کہ یاد ہی نہ بھول جاؤں۔ تیسرے، اگر آپ کسی جگہ سے چیز خریدیں تو ممکن ہے اس کے پاس چینج نہ ہو۔ پھر آپ چینج کے لیے جگہ جگہ خوار ہوں۔
"جان بچی سو لاکھوں پائے" یہ کہاوت کیوں ایجاد ہوئی! جان کی قیمت سمجھانے کے لیے۔ ایسی بہادری جو بیوی کو بیوہ، بچوں کو یتیم اور بوڑھے ماں باپ کو زندہ لاش بنا دے، پرلے سرے کی حماقت ہے۔ اس سے وہ بزدلی ہزار درجے بہتر ہے، جو گھر کا شیرازہ بکھرنے نہ دے۔ زندگی بہت قیمتی ہے۔ اسے کسی احمق کی حماقت کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ تماش بینوں کی واہ واہ کے چکروں میں اپنا آپ نہیں گنوانا چاہیے۔ کبھی اپنی انا کو اتنا اونچا مت لے جائیں کہ وہ آپ کی زندگی کو ایک بوجھ بنا دے۔ طوفانوں میں بڑے بڑے درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں۔ بچتے وہی ہیں، جن میں لچک ہوتی ہے۔ آپ کے ہاتھوں میں سخت لکڑی ذرا سے زور سے کڑک کی آواز سے ٹوٹ جائے گی۔ مگر لچک دار ٹہنی کو آپ اپنے پورے زور سے بھی نہیں توڑ سکتے۔
جھنجھوڑ دینے والے ہر حادثے کی خبر، دلخراش سانحے کا ہر واقعہ ہمارے لیے عبرت کا سامان لے کے آتا ہے۔ ان حوادث سے عبرت حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو مشکلات سے بچانا چاہیے۔
نوٹ: یقیناً سارے ریڑھی والے یا مزدور اجڈ نہیں ہوتے۔ اس مضمون میں میرے مخاطب وہ لوگ ہیں، تہذیب، وقار اور شائستگی سے جن کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔

