Javed Ahmad Ghamidi Sahib Aur Deegar Ulama Mein Farq
جاوید احمد غامدی صاحب اور دیگر علما میں فرق

برسوں پہلے ایک تحریر نظروں سے گزری۔ اس میں غامدی صاحب کے ایک تنقیدی مضمون کا حوالہ دے کر طاہر القادری صاحب کے معتقدین میں سے کسی نے لکھا: آپ اور آپ کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب کی اوقات ہی کیا ہے، محض چند سو عقیدت مند۔ ادھر ہمارے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو ان کے لیے ہر وقت جانیں ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں۔
کچھ اسی طرح کے فقرے تھے۔ غامدی صاحب کے متعلق اس ایک ردعمل سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ان کے اور دیگر علما کے درمیان امتیاز کس درجے کا ہے۔ نیز اس بات کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ روایتی علما نے اپنے معتقدین کے ذہنوں میں اپنی اندھی عقیدت ہی ٹھونس رکھی ہے۔ انھیں اس لائق نہیں کیا کہ یہ کسی فکر کو عقلی پیمانے پہ پرکھ سکیں، اس کا جائزہ لے سکیں یا اختلاف کے آداب ہی سیکھ سکیں۔ انھیں یہی سکھایا گیا ہے کہ بس سرِ تسلیم خم کیے رکھو اور ہماری ہر بات پہ "آمَنّا و صَدّقُنا" کہو۔ جو ہمارے نظریات کے خلاف جائے، اس پہ ٹوٹ پڑو۔ کفارِ مکہ کی اصل نفسیات کیا تھی جس نے انھیں انکارِ نبوت کی طرف دھکیلا! یہی اپنے آبا کی فکر کی پابندی تھی، یعنی "حَسُبُنَا مَا وَجَدُنَا عَلَیُهِ اٰبَآءَنَاؕ" ہمیں وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ تو یہ نفسیات جہاں کہیں ظہور کرے گی اسی طرح کے گل کھلائے گی۔
مقابلے میں نبی ہو یا غیرِ نبی ردعمل اسی طرح کا ہوگا۔ او جی! متقدمین میں سے تو کسی نے ایسی بات نہیں کہی، فقہا میں کسی نے ایسا فتویٰ نہیں دیا، یہ نئے عالمِ دین پتا نہیں خود کو کیوں عقلِ کل سمجھتے ہیں، یہ تو نرا فتنہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ کفار کے انکار کو نہ دیکھیں، ان کی سوچ کو دیکھیں جس نے سامنے کی حقیقت کا انکار کیا۔
غامدی صاحب کا پایہ تین اعتبار سے بہت بلند ہے۔ ایک اخلاقی حوالے سے، دوسرا علمی اعتبار سے، تیسرا اردو زبان پہ گرفت کے لحاظ سے۔ میرے خیال میں آپ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے سماج کی روایتی سوچ سے ہٹ کر پورے مذہب کا مطالعہ بہت دقتِ نظر سے کیا ہے۔ قران کی ہر آیت اور حدیث کی ہر روایت کو عقل اور نقل کے کڑے معیار پہ پرکھا اور پھر اس کے رد و قبول کا فیصلہ کیا۔ لکھنے کو یہ جتنا آسان ہے، عمل کرنے کو یہ اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ آبا کی روایت کا تنقیدی جائزہ لینا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ہے۔ اس لیے کہ انسان فکری اعتبار سے تساہل پسند ہے۔
ورثے میں اسے جو ملے وہ اسے مِن و عن قبول کرنے پہ یقین رکھتا ہے۔ اس پہ نظر ثانی کرنا اسے کسی طور نہیں بھاتا۔ اس کی دوسری وجہ اجداد کی عظمت ہے۔ اس کے نزدیک پُرکھوں کے نظریات کی پرکھ کرنے سے ان کی عظمت کم ہوتی ہے۔ بڑوں کا بڑا پن اس لائق ہے کہ ان سے ملی ہر شے کو جوں کا توں قبول کیا جائے۔ اس اعتبار سے یہ روایت پسند طبقہ ہے، درایت سے جس کا دور کا بھی علاقہ نہیں۔ یہ منقولات پہ یقین رکھتا ہے نہ کہ معقولات پہ۔ یہ ماضی کے اسیر اور گئے وقتوں کے قیدی ہوتے ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں طرزِ کہن پہ اڑنے والے، آئینِ نو سے ڈرنے والے۔
غامدی صاحب حلقۂ مولویت میں اسی لیے ناپسندیدہ ٹھہرے کیوں کہ ان کے ہاں سچائی کی تلاش ایک ایسا بے رحم عمل ہے جو پُرکھوں کی تقدیس دیکھتا ہے اور نہ ہی بڑوں کی عظمت۔ دوسری طرف ملائیت کا پورا گروہ دوسری انتہا پہ کھڑا ہے، جسے اپنے متقدمین کی روایات سے بال برابر بھی انحراف قبول نہیں۔ دراصل یہ انحراف اپنی ذات میں اتنا تکلیف دہ ہے جتنا پھوڑے سے نکلتی پیپ۔ اس پیپ کے اخراج سے انسان کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ اس سے ڈرتا ہے۔ غامدی صاحب کے سے بہت کم لوگ ہیں جو روایتوں کے پھوڑوں میں پڑی پیپ کو خارج کرنے کا حوصلہ رکھتے اور شفا پاتے ہیں۔
یہ وہ فرق ہے جو غامدی صاحب کو پاکستان کے مولویوں، ذاکروں اور بڑے بڑے شیوخ سے جدا کرتا ہے۔ پامال راہوں سے ہٹ کر ستھری اور صاف راہوں پہ چلنا عورت کے بچہ جنم دینے کی تکلیف کے برابر ہے۔ اس دردِ زہ کی تکلیف وہی اٹھائے گا جو علم کا سچا طالب ہے۔ غامدی صاحب کو مبارک ہو! وہ اس مرحلے سے ہو گزرے ہیں۔ تبھی تو دین کو اس کی اصل فطرت میں قوم کے سامنے پیش کیا اور بدلے میں روایتی فکرکے علمبرداروں سے صلواتیں سنیں، گالیاں کھائیں۔ کسی نے انہیں فتنہ گردانا تو کسی نے انہیں نئے دین کا موجد قرار دیا، کسی نے منکرِ حدیث کہا تو کسی نے ملحدوں کا ایجنٹ جانا۔ بدلے میں غامدی صاحب بالکل بے مزہ نہیں ہوتے کہ سامنے آیت "وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الُجٰهِلُوُنَ قَالُوُا سَلٰمًا" آ جاتی ہے۔ سو درگزر کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
غامدی صاحب کا ماننا ہے کہ "نحنُ رِجال وَ ھُم رِجال" یعنی اگر غلطی ہمیں لگ سکتی ہے، تو ہمارے بڑوں کو بھی لگ سکتی ہے۔ دین کی تعبیر پیش کرتے وقت بڑوں کے پاس کوئی جبریل نہیں آتا تھا یا مذہب کی تشریح کرتے وقت انھیں کوئی الہام نہیں ہوتا تھا۔
یہ غامدی صاحب ہی ہیں جنھوں نے بتایا کہ دین صرف پیغمبر پیش کرتا ہے اور بعد میں آنے والے اس دین کی تشریح کرتے ہیں۔ دین کی تشریح ایک عقلی کام ہے، جس میں خطا کا پورا پورا امکان ہے۔ گویا غامدی صاحب کی فکر کی بنیاد "أفلا تعقلون" پر ہے کہ درایت (عقل) سے کام لو اور باقیوں کی فکر کی بنیاد "اَوَ لَوُ كَانَ اٰبَآؤُهُمُ لَا یَعُقِلُوُنَ شَیُئًا وَّ لَا یَهُتَدُوُنَ" پر ہے، یعنی روایت (ماضی سے جو ملے) سے کام لو۔ یہاں مراد پیغمبر ﷺ کی مخالفت نہیں، بلکہ بڑوں کے نظریات پہ اندھا اعتماد ہے۔
علما اور غامدی صاحب کے درمیان فرق صرف عقلی نہیں، اخلاقی بھی ہے۔ آپ کی محفل میں آنے والے ایک کمترین شخص کو بھی اتنی ہی عزت ملے گی جتنی ملک کے وزیراعظم کو۔ پاکستان کا کوئی بڑے سے بڑا عالمِ دین اس ظرف کا اظہار کرکے دکھا ئے، دانتوں پسینہ آ جائے۔
چوتھا فرق یہ کہ قدرت نے غامدی صاحب کو جو لغت (ڈکشنری) دیا ہے اس میں کوئی دشنام ہے اور نہ ہی کوئی الزام۔ سارا یوٹیوب بھرا پڑا ہے مولویوں کی گالیوں اور بیہودہ الزامات سے۔
ایک پانچویں چیز جو مولویوں اور آپ کے بیچ میں حدِ فاصل ہے، وہ ہے اردو زبان پہ آپ کی گرفت۔ آپ کے مونہہ سے نکلنے والے الفاظ کیا ہیں! موتیوں کی مالائیں ہیں جگمگ جگمگ کرتی۔ اتنی روانی اور لفظوں کا اتنا عمدہ انتخاب کہ گمان ہوتا ہے کہ اردو زبان ان کے ہاں خلق ہو رہی ہے۔ فقرے اپنی بہار دکھلا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے ہونٹوں اور قلم سے لکھنے والا ہر لفظ جچا اور ہر فقرہ تلا ہوتا ہے۔ آخر میں غامدی صاحب کے بارے میں اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ایک غیر سنجیدہ قوم کو ملا دین کا ایک سنجیدہ طالبِ علم۔

