Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Islam Quraishi Ka Bagh

Islam Quraishi Ka Bagh

اسلام قریشی کا باغ

قدرت کا بنایا ماحول ہی ایسا منظر ہے، دل آپ سے آپ جس کی طرف کھنچتا چلا آئے۔ زمین پہ لگے پودے، پھول، درخت، درختوں پہ چہچہاتے پرندے، پیڑوں پہ بنے گھونسلے، گھونسلوں میں انڈوں پہ بیٹھی مادہ، انڈوں سے نکلتے بچے، بچوں کے منہ میں چوگ دیتی ان کی ماں، مختلف اطراف میں پھیلی انگوروں کی شاخیں، ان پہ لٹکتے انگوروں کے گچھے، تیز ہواؤں میں لہراتا سبزہ، دائیں بائیں جھومتی فصلیں، رات کو جھاڑیوں میں چمکتے جگنو، بارش کے موسم میں بھیگتے درخت، پودے اور پرندے، بارش کے بعد یہ نکھرے قدرتی مناظر، خود میں اتنی کشش رکھتے ہیں کہ ان سے نظریں ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ درخت، پھول اور پودے، یہ زمین کا حسن تو ہیں ہی، آکسیجن فراہم کرنے کے اعتبار سے یہ انسانی زندگی کی بقا کا پیغام بھی ہیں۔

کسی خطۂ عرضی پہ لگے پھولوں اور پھلوں کے پودے یوں لگتا ہے جیسے کوئی الہڑ مٹیار بن سنور کر منظر عام پہ آنکلے۔ زمین کے ٹکڑے پہ لگے قسم قسم کے درخت، بیلوں کی پھیلی شاخیں، ہر سو لہلہاتا سبزہ، حد نگاہ تک پھیلی فصلیں، اس عام سے ٹکڑے کی شان اس قدر بڑھاتی ہیں کہ لگتا ہے کوہِ قاف کی کوئی خوبصورت پری ادھر آ نکلی ہے، گمان ہوتا ہے کہ جنت کی کوئی حور یہاں اتر آئی ہے۔

چلیں آج میں آپ کو آپ کے بچپن میں لیے چلتا ہوں۔ تیسری جماعت میں آپ نے اردو کی کتاب کے آخر میں"اشرف کا باغ" نامی ایک نظم پڑھی تھی۔ آج اس کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔

اشرف نے اک باغ لگایا
پودوں اور پھولوں سے سجایا

لکھ پڑھ کر جب گھر وہ آتا
بستہ رکھتا کھانا کھاتا

کھانا کھا کر وہ سو جاتا
سو کر اٹھتا باغ کو جاتا

کھود کے وہ ایک ایک کیاری
کرتا نرم وہ مٹی ساری

مٹی میں پھر کھاد ملاتا
کیاری کو ہموار بناتا

پھر کچھ بیج وہاں بو دیتا
بیج کو مٹی میں کھو دیتا

روز خبر وہ ان کی لیتا
وقت پہ ان کو پانی دیتا

اچھے اچھے پودے اگتے
آکے پرندے ان پہ چہکتے

جوہی کھلتی، بیلا کھلتا
چمپا کھلتی، گیندہ کھلتا

پھل بھی میٹھے میٹھے آتے
اپنا اپنا رنگ دکھاتے

اشرف یہ پھل آپ بھی کھاتا
اور گھر والوں کو بھی کھلاتا

دوست جو اس سے ملنے آتے
وہ بھی پھل اس باغ کا کھاتے۔

یہ تو تھی تمہید باغ کے حوالے سے۔ آج میں آپ کو ایک ایسے باغ کا نظارہ کروانا چاہتا ہوں جو اشرف کا نہیں، محمد اسلام قریشی کا باغ ہے۔ یہ ایسا شخص ہے جو فطرت پسند ہے، جو پودوں کا دلدادہ ہے، جو درختوں کا شیدا ہے، جو پھولوں کو اپنی زندگی کا حصہ قرار دیتا ہے۔ جہلم اس شخص کو محمد اسلام قریشی کے نام سے جانتا ہے۔ شہر بھر کی ایک معروف شخصیت ہے۔ تین کنال نو مرلے زمین کے ایک ٹکڑے پہ آپ نے دو عدد ادارے اولڈ ہوم اور آئی ہسپتال کے نام سے بنا رکھے ہیں۔ ان کے بیچ میں اسلام قریشی صاحب نے پھل دار درخت اور پھول دار پودے لگا رکھے ہیں۔

ہر وقت یہاں بہار کا گمان گزرتا ہے۔ ہوائیں جب ان پودوں سے ٹکراتی ہیں تو پودے دائیں بائیں جھوم کر فطرت کو اپنی بے خودی کا پیغام دیتے ہیں۔ باد صبا کے میٹھے میٹھے اٹکھیلیاں کرتے جھونکے جب پیڑوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو خیال گزرتا ہے کہ برسوں کے بچھڑے دو دوست ٹوٹ کر مل رہے ہیں۔ مسجد کے سامنے لگے انجیر کے پیڑ پہ بیٹھی کوئل جب اپنی دلکش آواز "کُو کُو" کی صورت میں بولتی ہے تو کانوں میں گویا جل ترنگ سے بچ اٹھتے ہیں۔ بلبلوں کا جوڑا جب پودے کی شاخ پہ بیٹھتا ہے اور اپنے گلے سے نکلنے والی خاص موسیقی سے فضاؤں میں سر بکھیرتا ہے تو سنتے ہی بے ساختہ ہونٹوں سے نکلتا ہے: سبحان تیری قدرت!

ان مختلف پودوں اور پرندوں کی اس آماج گاہ کو میں جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں سمجھتا۔ خدا جیتا رکھے حاجی محمد اسلام قریشی کو جس کی فطرت پسند طبیعت نے اس عام سے ٹکڑے کو گل و گلزار کرکے اسے جنت نظیر بنا دیا ہے۔ لیجیے! اب باغ کے جلوے دیکھیں۔ مرکزی دروازے سے گزر کر اندر آئیں تو دائیں بائیں انگور کی دو بیلیں کیا شان سے پھیلی ہیں۔ ان پہ لگے انگوروں کے گچھے اتنے پیارے لگتے ہیں کہ جی کرتا ہے ہماری نظریں ان پہ ہمیشہ ٹکی رہیں۔ پرندے بہت شیدائی ہوتے ہیں اس بیل کے۔ کبھی ایک پرندہ آ رہا ہے اور کبھی دوسرا۔ مختلف اوقات میں یہاں کئی پرندوں نے بسیرا کیا ہے۔

بھلا کیوں! اپنی نسل کَشی کے لیے۔ پہلے بڑے اہتمام سے خُمرہ مادہ آئی۔ یہ فاختہ کی قسم کا ایک پرندہ ہے۔ شکل دونوں کی ایک سی ہے۔ بس تھوڑا سا فرق ہے۔ فاختہ کا رنگ سلیٹی ہے اور اس کے گلے میں کالے رنگ کا آدھا گول دائرہ ہوتا ہے یعنی ہاف بلیک رِنگ۔ جبکہ خمرے کا رنگ ہلکا براؤن ہوتا ہے۔ یہ فاختہ کی طرح اتنا خوبصورت تو نہیں ہوتا مگر صورت میں اس کے قریب قریب ہوتا ہے۔ خیر بڑے اہتمام سے خمرہ مادہ آئی۔ اس نے گھونسلا بنایا دروازے کے پاس ایک لمبے سوراخ میں۔ 25 دنوں کے بعد اس سے دو بچے نکلے۔ خدا کی شان کہ دو بچوں کے بڑے ہونے کے بعد ایک اور خمرہ مادہ نے یہیں پہ یہی عمل دہرایا۔ پھر انگوروں کی اس بیل میں چڑیا نے گھونسلا بنایا اور ایک بچہ پیدا کیا۔

انگور کی بیلیں اس بار پھل سے لدی پڑی تھیں۔ کھانے والوں نے انگور خوب کھائے۔ پرندوں کی بھی موجیں لگی رہیں۔ ان کا تو تانتا بندھا رہا۔ امرود کے پیڑوں پہ بھی پکے امرود اپنی اور ہی شان دکھا رہے ہیں۔ مزے لے لے کر سب نے کھائے۔ اپنے باغ کا پھل توڑنے میں ایک خاص لذت ہے۔ پھر پھل توڑ کر کھانا بھی ایک قسم کا عیش ہے۔ یہ لذت، یہ عیش کسی دکان سے پھل خرید کر کھانے میں نہیں ملے گا، ہر گز نہیں ملے گا۔

انگوروں کی بیلوں کے پاس ہی لیموں کا ایک پودا ہے۔ بہت لیموں لگتے ہیں اس پہ۔ گیٹ کے باہر بھی لیموں کے دو پودے حاجی صاحب نے لگا رکھے ہیں۔

اب آتے ہیں ہم میٹھے کے پودوں کی طرف۔ تو جناب! میٹھے کے بڑے بڑے پانچ چھ پودے مختلف اطراف میں لگے ہیں۔ ہر سال ان پہ سینکڑوں میٹھے لگتے ہیں۔ میٹھے کے پودے پہ جب پھول اگتے ہیں پھل آنے سے پہلے، تو ان پھولوں پہ کالی اور نیلے رنگوں کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بہت منڈلاتی ہیں۔ یہ چڑیاں ان پھولوں کا رس بہت شوق سے چوستی ہے۔ شہد کی مکھی بھی شہد بنانے کے لیے ان پھولوں کی طرف لپکتی ہے۔ جیسے سرسوں کے پودوں کے پھولوں میں مٹھاس ہوتی ہے ایسے ہی میٹھے کے پھولوں میں بھی مٹھاس ہوتی ہے مکھی جس سے شہد تیار کرتی ہے۔

حاجی صاحب نے مسجد کے سامنے انجیر کا بھی ایک پودا لگا رکھا ہے۔ بہت گھنا ہے۔ ہر سال خوب پھل دیتا ہے۔ کوئل ہر بہار کے موسم میں یہاں کا رخ کرتی ہے۔ اس کے چوڑے پتوں میں چھپ کر بیٹھتی ہے اور اپنی سریلی تانیں"کو کو" کرکے فضا میں بکھیرتی ہے تو فضا بھی اس کے ساتھ گنگنانے لگتی ہے۔ کوئل انجیر بڑے شوق سے کھاتی ہے۔ دیگر پرندے بلبل، لالی اور مختلف قسم کی چڑیاں وغیرہ بھی انجیر کے پھل کو اپنی خوراک بناتی ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali