Iran Aur Arab Riyasaton Mein Mazhab Ke Naam Par Fasad Kyun Nahi?
ایران اور عرب ریاستوں میں مذہب کے نام پر فساد کیوں نہیں؟

عرب ریاستوں میں بادشاہت کا نظام رائج ہے۔ وہاں جمہوریت کا کوئی وجود نہیں۔ آپ کو وہاں ووٹنگ کا عمل ملے گا نہ کوئی ایم این اے، ایم پی اے یا پارلیمنٹ کا وجود، جہاں ملک کی پالیسیاں مشاورت سے بنیں۔ عدلیہ بھی مکمل طور پر حکمرانوں کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ بادشاہ جو فیصلہ کر دے، اسے بدلنے کی جرئت کسی جج میں نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ ریاست کا مفتیِ اعظم بھی بادشاہ کے خلاف نہیں جا سکتا۔ ریاست کی تمام پالیسیاں بلا شرکتِ غیرے بادشاہ کے ہاتھوں تشکیل پاتی ہیں۔ یہی حال ایران کا ہے۔ وہاں بظاہر ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں، ایک پارلیمنٹ بھی موجود ہے، مگر حقیقی حکومت ملاؤں اور امام خمینی کے فکری پیروکاراؤں کی ہے۔ ان کی اجازت اور مرضی کے بغیر نہ کوئی صدر بن سکتا ہے اور نہ کوئی سیاسی فیصلہ ہو سکتا ہے۔
اب اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے کے بعد یہ بھی جان لیجیے کہ ان عرب ریاستوں اور ایران میں آپ کو کسی مذہبی تنظیم کا وجود نظر نہیں آئے گا۔ وہاں کسی دینی مدرسے یا مذہبی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل مولوی یا ذاکرکے ذہن میں یہ خیال نہیں آسکتا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی جگہ دینی مدرسہ کھول لے۔ بڑے سے بڑا عالمِ دین بھی خود کوئی مسجد، مدرسہ یا مذہبی مرکز قائم نہیں کر سکتا، خواہ وہاں اس کی ضرورت کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کوئی شیخ الحدیث، کوئی مفتی، یا کوئی ذاکر اپنی طرف سے نہ مذہبی تنظیم بنا سکتا ہے، نہ تبلیغی جماعت کھڑی کر سکتا ہے اور نہ اخلاقی اصلاح کے نام پر کوئی تحریک چلا سکتا ہے۔
عرب ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور خلیجی ریاستیں، سب میں یہی اصول نافذ ہے۔ وہاں کوئی غیر سرکاری مسجد، نجی مدرسہ یا آزاد مذہبی تنظیم کا وجود نہیں ملے گا۔ مسجد اور مدرسہ بنانے کی ذمہ داری مکمل طور پر حکومت کی ہے۔ ایران میں بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں کوئی شیعہ عالم، کوئی خطیب یا کوئی ذاکر اپنی مرضی سے مدرسہ قائم کر سکتا ہے اور نہ امام بارگاہ ہی تعمیر کر سکتا ہے۔ سنّی حضرات بھی ایران میں سرکاری سرپرستی کے بغیر مسجد نہیں بنا سکتے۔
یہ دراصل ایک مثبت پالیسی ہے، جس کی وجہ سے یہ ممالک مذہبی گروہوں، فرقہ بندی اور مولویوں اور ذاکروں کی من مانیوں سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ان ممالک میں آپ کو کوئی عالم دین چندہ مانگتے، سڑکوں پر عوام کو اُکساتے یا پیر خانہ چلاتے نظر نہیں آئے گا۔ وہاں کوئی مذہبی پریشر گروپ سڑکیں بند کرکے ریاست کو مفلوج نہیں کر سکتا۔ نہ کوئی دھرنا، نہ دھونس، نہ مذہب کے نام پر تخریب کاری۔ یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا اور ایران کی سڑکیں سال بھر رواں رہتی ہیں اور معاشرہ مذہبی فتنوں سے محفوظ۔
یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات میں آپ اپنی مرضی سے آن لائن قرآن اکیڈمی بھی نہیں کھول سکتے۔ قرآن پڑھانے کے لیے لائسنس لازمی ہے۔ بغیر لائسنس قرآن کی ڈیجیٹل تعلیم دینے پر پچاس ہزار درہم تک جرمانہ اور دو ماہ جیل ہو سکتی ہے۔ لائسنس کے لیے عمر 21 سال سے زائد، کردار صاف، صحت اچھی، کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ انٹرویو اور ٹیسٹ میں کامیابی بھی شرط ہے۔ مقصد واضح ہے، نوجوان نسل اور معاشرے کو مذہب کے نام پر گمراہ کرنے والوں سے بچانا۔
اسی سخت نگرانی اور نظم کی بدولت عرب ریاستیں اور ایران مذہبی جھگڑوں، مذہبی سیاست اور مسلکی تصادم سے محفوظ ہیں۔ نہ سوشل میڈیا پر مذہبی جنگ، نہ گالی گلوچ، نہ فرقہ وارانہ تقسیم۔ مذہب اور مسلک کے نام پر فساد کا دروازہ بند ہے۔ وہاں کوئی اس بنیاد پر مذہبی تحریک نہیں چلا سکتا کہ ہم نے حضور کے دین کو تخت پہ لانا ہے۔
اب ذرا پاکستان کا منظر دیکھ لیجیے۔ یہاں "باوا آدم نرالا" نظام ہے۔ جس کا جہاں جی چاہے، مسجد بنا لے، مدرسہ بنا لے۔ کوئی پوچھ تاچھ نہیں۔ جہاں کسی کو کوئی خالی پلاٹ ملے تو اس کے مالک کو جنت کا لالچ دے کر مسیت یا مدرسہ کھول لیتا ہے۔ جس کا بس چلے تو باپ کی قبر کو زیارت گاہ بنا کر وہاں عرس کروانا شروع کر دے گا۔ مدرسے سے فارغ التحصیل جو نوجوان تیز اور ہوشیار ہوتے ہیں، وہ لوگوں کو مذہبی بنانے کے لیے کوئی تنظیم بنا لیں گے یا مذہب کے نام پہ سیاست شروع کر دیں گے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایک ہی مسلک کے تحت درجنوں تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں۔
پھر جس تنظیم کا جی چاہے، شدت پسندی کی چادر اوڑھ کر چند دنوں میں ملک جام کر دیتی ہے۔ سڑکیں بند، کاروبار ٹھپ، اربوں روپے کا روزانہ نقصان اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی۔ دنیا حیران رہ جاتی ہے کہ کیسے مٹھی بھر مذہبی لوگ ریاست کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور حکومت بے بس کھڑی تماشا دیکھتی رہتی ہے۔

