Insan Apne Mazi Ko Kyun Pasand Karta Hai?
انسان اپنے ماضی کو کیوں پسند کرتا ہے؟

انسان فطرتاً اپنا ماضی پسند کرتا ہے۔ ہر پرانی پود (نسل) ماضی کو یاد کرکے اس لیے آہیں بھرتی ہے، گزرے وقت کی یادوں کو اس لیے سینے سے لگائے پھرتی ہے، کیونکہ وہ نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتی۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ماضی کی روایات دم توڑ چکی ہیں، گئے وقتوں کے طور طریقے ختم ہو گئے ہیں، پرانی اشیا کا استعمال متروک ہوگیا ہے، محلے کی وہ شکل و صورت نہیں رہی، گراؤنڈز ختم ہو گئے ہیں۔ وہ جو کھلا کھلا علاقہ تھا، اب ہر کہیں گھر بننے سے تنگ ہوگیا ہے، سنگی ساتھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں، اہم رشتے قبروں میں جا سوئے ہیں۔
جوانی ڈھل چکی ہے، اعضا مضمحل ہو چکے ہیں، بازوں اور ٹانگوں میں وہ پہلی سی طاقت نہیں رہی، جسم کی وہ پھرتی، وہ چالاکیاں اب خواب و خیال ہو چکی ہیں۔ کہاں وہ بجلی کی سی رفتار سے دوڑ بھاگ اور کہاں اب گٹے گوڈے جواب دے گئے ہیں۔ پہلے جی میں جو آیا، کھا لیا۔ اب ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق پرہیزی کھانا کھانے پہ مجبور ہیں۔ معدہ اب ساتھ نہیں دے رہا۔ اٹھتے بیٹھتے وقت ہڈیوں میں کڑکڑ ہونے لگی ہے۔ اب وہ پرانی چیزیں نہیں رہیں، مثلاََ دیوا، لالٹین، سبزہ چرتے کھوتے کھوتیاں، تماشے والا، جو سانپ، بندر، ریچھ اور بکری کا تماشہ دکھاتا تھا۔ وہ گچک، وہ مرونڈا، ٹانگر، کریم رول، بسکٹیاں، بیل، ہل وغیرہ۔ اس طرح کی سب چیزیں ماضی کی نذر ہو چکتی ہیں۔ اب وہ نئی نئی چیزیں دیکھتے ہیں، جیسے فریج، ٹی۔ وی، اے۔ سی، ہیٹر اوون وغیرہ۔
یوں پرانے لوگ اپنی اُس بے فکری، جوانی اور ماضی کی روایتوں کی موت دیکھتے ہیں۔ انھیں عجیب سی الجھنیں آن گھیرتی ہیں۔ وہ نئے ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا نہیں کر پاتے۔ ہو بھی نہیں سکتی۔ اس لیے وہ فوراََ ماضی میں پناہ لے لیتے ہیں۔ چل وہ آگے رہے ہوتے ہیں، مگر منہ ان کا پیچھے کی طرف ہوتا ہے۔ جب وہ یہ فقرہ "ہن اوہ وقت نئیں رئے" بولتے ہیں، تو اس کے پیچھے ان کے لاشعور میں چھپی ان کی تلخیاں ہوتی ہیں، جوانی ختم ہونے اور ساتھیوں کے بچھڑنے کی نعمتیں چھن جانے کی وجہ سے ناراضیاں ہوتی ہیں۔ پھر تنہائی انھیں ستاتی ہے۔ نوجوان انھیں وقت نہیں دیتے، ان کا دل نہیں بہلاتے، ان کی کمپنی کو انجوائے نہیں کرتے۔ پھر موت کا ڈر بھی انھیں دامن گیر رہتا ہے۔ ہر جنازہ ان کے دل میں خوف پیدا کرتا ہے کہ باری اب آئی کہ تب آئی۔
ہاں! ماضی کا ایک زاویہ ایسا ہے، جس کی وجہ سے ان کا پریشان ہونا بنتا ہے۔ وہ ہے صاف ستھری آب و ہوا کا ختم ہونا۔ نامرادوں نے بے دریغ درخت کاٹے، زرعی زمینوں پہ ہاؤسنگ کالونیاں، بھٹے اور فیکٹریاں بنائیں، جن کی وجہ سے فضا بھی آلودہ ہوگئی اور قسم قسم کے پرندے بھی ختم ہو گئے۔
بوڑھے اس معاملے میں ضرور سچے ہیں۔ باقی کے معاملات میں جیسی شکایتیں ان کی ہیں، ویسی ہی شکایتیں ان کے بڑوں کی بھی تھیں۔ ہمارے اجداد کے اجداد بھی یہی گلے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ "ہن اوہ وقت نئیں رہیا"۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کبھی اچھا نہیں رہا۔ ماضی میں جو یورپ میں دو خوفناک جنگیں کئی سال تک چلیں، ان میں کروڑوں لوگ مرے اور کروڑوں ہی زخمی اور اپاہج ہوئے تھے۔ نیز افغانستان سے نادر شاہ اور ایران سے احمد شاہ ابدالی کے حملوں کی وجہ سے ہندوستان میں خون کی ندیاں بہہ جاتی تھیں۔ اس سے پیچھے جائیں تو ہلاکوخان اور چنگیز کی وحشت اور دہشت نے آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ کیا اس وقت کے لوگ سکھی تھے؟ ہر گز نہیں۔
عراق ایران جنگ مسلسل دس سال تک چلی۔ تقریباً دس لاکھ لوگ اس جنگ کا رزق بنے۔ یہ تلخ سچائیاں حال کی نہیں، ماضی کی ہیں۔ یہ فقرہ "ماضی کیا ہی اچھا زمانہ تھا" کسی افسانے سے کم نہیں۔ ایک فیصد بھی سچائی نہیں اس میں۔ یہ تو بڑھاپے کی یاوہ گوئی ہے، بےسروپا کہانی ہے۔
آپ اپنا کمرہ اور بستر چھوڑ کر برابر والے کمرے میں کسی اور کے بیڈ پر سوئیں۔ کیسا محسوس کریں گے؟ سکون سے نیند آئے گی؟ یہی حال ماضی کے کمرے اور گئے وقت کا بستر چھوڑ کر نئے ماحول کے کمرے اور جدید ماحول کے بستر پہ سونے کا ہے۔
ماضی دیاں تاں بس ایویں کہانیاں ای نیں۔ دراصل ہر کوئی اپنی عمر رسیدگی کی وجہ سے اپنے وجود اور تھکی ہاری نفسیات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ ذہنی تفکرات کے نیچے دبا اور مختلف امراض کا شکار انسان بچپن کی یادوں میں پناہ نہ لے، تو کہاں لے!

