Humaira Asghar Ki Maut Par Mandlate Gidh
حمیرا اصغر کی موت پہ منڈلاتے گدھ

حمیرا اصغر تو مر گئی مگر اس کی لاش کو بھنبوڑنے کا عمل جاری ہے۔ کوئی اس کی موت کو شامتِ اعمال قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے جہنم کی وعیدیں سنا رہا ہے۔ کسی کے نزدیک اسے ماں باپ کی نافرمانیوں کی سزا ملی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو اپنے تئیں فقیہانِ حرم بنے مذہب کی غلط سلط تشریح پہ بھی تلے ہیں اور خدائی اختیارات بھی استعمال کر رہے ہیں۔ جس "کردار" نے سماج کو پستی میں جا پھینکا ہے، اس سے اس کے سوا امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ سماج کے اس کرتا دھرتا کا دو ٹوک اعلان ہے کہ مرد و زن کی تفریق غالب اور مغلوب کے تناظر میں ہوگی۔ زن اگر جینا چاہتی ہے تو اسے مرد کی شرائط مان کر ہی جینا ہوگا، وہ اسے جس کھونٹے سے باندھے اسے بندھنا ہوگا۔ وگرنہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹے اور کہیں چل بسے۔
بات اتنی سی ہے کہ اس کرم جلی نے شوبز میں اپنا کیریئر بنانے کا ارادہ کیا۔ گھر والوں کو آگاہ کیا تو انہوں نے نہ صرف انکار کیا، بلکہ اس سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ کیریئر چننے کا حق اسے اس ملک کا قانون دیتا ہے۔ اگر علما کے نقطہ نظر سے لڑکی شوبز میں نہیں آ سکتی تو پھر عاطف اسلم اور فواد خان وغیرہ کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے! یقیناً ان کے لیے بھی یہ ممنوع ہے مگر سوال یہ ہے کہ اتنی ہی نفرت مرد اداکاروں کے حوالے سے بھی ان علما کے دل میں ہے! کیا ہمارا معاشرہ اتنی نفرت اداکاروں سے بھی کرتا ہے؟ ان کے نزدیک تو یہ قوم کے ہیرو ہیں۔ جس شہر میں آ جائیں سیلفیوں کے لیے لوگوں کا تاندھا بندھ جاتا ہے۔
حمیرہ اصغر نے بھی یہی راہ چنی۔ کوئی چکلا کھولنے کی اجازت طلب کر بیٹھی تھی وہ اپنے باپ سے؟ رہی بات یہ ہے کہ وہ بے بسی کی موت مری تو جناب! یہ قیمت تو پھر اسے چکانی تھی سماج سے بغاوت کرنے کی۔ اس نے ارادہ باندھا کہ میں اپنی شرائط پہ جیوں گی تو اس نے ایسا کیا۔ ہاں ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ اس کے لیے بہتر تھا کہ وہ کسی سے شادی رچا لیتی یا کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرتی جہاں دیگر عورتوں کے ساتھ وہ گھل مل سکتی۔ مگر ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس رائے کو اپنائے۔ پتا نہیں اس کے کیا مسائل تھے۔ ملا اور ملا ٹائپ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر وہ گھر والوں سے بغاوت نہ کرتی، والدین کا کہا مانتی تو اس المناک موت سے دوچار نہ ہوتی۔ ہاں! مگر اِس صورت میں وہ المناک زندگی ضرور گزارتی، گھٹ گھٹ کر ضرور جیتی۔ اس نے المناک زندگی کی بجائے المناک موت کا انتخاب کیا۔
اب یہاں ایک سوال ہے کہ حمیرہ اصغر کے والدین نے جس غیرت کا مظاہرہ اپنی بیٹی کے لیے دکھایا، کیا ایسی ہی غیرت کا مظاہرہ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں بھی دکھاتے اگر وہ شوبز میں جانے کے لیے ضد باندھتا۔ ایسا کبھی نہ ہوتا۔ کیا ہمارا مذہب اس متضاد رویے کی اجازت دیتا ہے! کوئی ایک آیت یا روایت بتا دیں جس میں مرد و زن کے حوالے سے تفریق کی گئی ہو اخلاقیات کے حوالے سے؟ مولوی لوگ عورتوں کے بارے میں بولیں تو یہ حضرت فاطمتہ الزہراؑ سے کم کوئی مثال نہیں دیتے، مگر جب باری آتی ہے مردوں کی تو اس وقت انہیں حضرت یوسفؑ بھول جاتے ہیں، جنہیں بند کمرے میں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے پورا زور لگایا زلیخا نے مگر آپ باہر کی طرف دوڑ پڑے۔ آپ لڑکیوں کو فاطمہؑ کے نقشِ قدم پہ چلانا چاہتے ہیں تو پھر لڑکوں کو بھی حضرت یوسفؑ کے نقشِ قدم پہ چلائیں۔
لڑکے سارا دن آوارہ گردی کریں، راتیں باہر گزاریں، زنا کریں، ان پہ کوئی روک ٹوک نہیں۔ مردوں کی اکثریت تو شادی کے بعد بھی زنا نہیں چھوڑتی۔ پابندیوں کے لیے ان کی نگاہیں صرف عورت پہ ٹکی ہیں اور پابندیاں بھی شریعت کی آڑ میں ذاتی خواہشات پر مبنی ہیں۔
ایک مولانا نے لکھا: شوہر کا کھانا پکانے اور جرابیں ڈھونڈنے والی کی لاش کبھی 6 ماہ تک لاوارث نہیں رہے گی۔ جناب! پاکستان میں جو ہر سال سینکڑوں عورتیں شوہروں کے کپڑے دھونے اور جرابیں ڈھونڈنے کے باوجود سسرال اور شوہروں کے ہاتھوں خوفناک طریقے سے قتل ہوتی ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے! کیا وہ بھی مذہب کی باغی اور والدین کی نافرمان ہیں!
ابھی چند پہلے فیصل آباد میں عورت پہ اس کے شوہر نے اتنا تشدد کیا کہ وہ ہسپتال میں مر گئی۔ اس کے چہرے اور سر پہ لگے زخموں کو دیکھ کر جسم کا رواں رواں کانپ اٹھتا ہے۔ نیز حمیرا نے نہیں اس کے گھر والوں نے اس سے منہ موڑا تھا۔ مسئلہ کچھ ہے اور فتوے یوں داغے جا رہے ہیں جیسے اس نے اسلام اور گھر والوں کو ٹھوکر پہ رکھ لیا تھا۔ خدا سے ڈرو اور اپنی موت کا سوچو۔ وہ پتا نہیں کیسے آنی ہے!
یاد آیا 2017ء میں بہاولپور میں آئل ٹینکر پھٹا تو 139 افراد جل کر کوئلہ ہو گئے۔ میرے سامنے دفتر میں بیٹھی ایک لڑکی نے یہ خبر سن کر کہا: "پتا نئیں ساڈی موت کنج آنی ایں" وہی لڑکی ٹھیک 8 ماہ کے بعد گوجرانوالہ میں اغوا ہوئی۔ دو ماہ تک ایک کمرے میں کتنے ہی لڑکے اس سے زیادتی کرتے رہے۔ تنہائی میں کیا خوف کا عالم ہوگا! اس وقت اس کی کیا کیفیت ہوگی جب موت اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس لیے کسی کے انجام پہ متکبرانہ فقرے بولنے کی بجائے اپنی خیر منائیں۔ سننے میں آیا ہے اپنی ذاتی زندگی میں وہ بہت اچھی تھی۔

