Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Hasad Karna Aur Hasad Karwana Dono Nuqsan Deh Hain

Hasad Karna Aur Hasad Karwana Dono Nuqsan Deh Hain

حسد کرنا اور حسد کروانا دونوں نقصان دِہ ہیں

کسی شہر میں ایک پڑھا لکھا بےروزگار رہتا تھا۔ اس نے دور دراز کے شہر کے اپنے ایک دوست کو خط لکھا کہ مجھے نوکری ڈھونڈ کر دے۔ چند دن کے بعد اس دوست کا بذریعہ خط جواب آیا کہ معذوروں کے ایک سکول میں ٹیچنگ کی ایک جاب ہے۔ آپ آجائیں۔ اس نے بوریا بستر باندھا اور پہنچ گیا سکول۔ اسے رہائش بھی اسی سکول کے کسی کمرے میں ہی دی گئی تھی۔ سب طلباء بھی وہیں رہتے تھے۔ اب جب وہ پہلے دن سکول میں آیا تو اس نے دیکھا کہ ہر لڑکا معذور ہے۔ کسی کی ایک آنکھ نہیں، تو کوئی دونوں آنکھوں سے محروم ہے۔ کس کو سنائی کم دیتا ہے تو کوئی بالکل بہرا ہے۔ کسی کی ایک ٹانگ نہیں تو کسی کی دونوں ٹانگیں نہیں۔ کسی کے سر پہ بال نہیں تو کسی کے کان نہیں۔ الغرض کوئی کانا ہے، کوئی لولا ہے، کوئی گنجا ہے اور کوئی لنگڑا ہے۔ کوئی ویل چیئر پہ چل رہا ہے تو کسی کا کب نکلا ہوا ہے۔ کوئی فالج کا شکار ہے تو کسی کا منہ ٹیڑھا ہے۔ کوئی ہکلا ہے، یعنی تتلا کے بولتا ہے۔ الغرض ہر کسی کے جسم میں کوئی نہ کوئی نقص ہے۔ اس سارے سکول میں اگر کوئی تندرست ہے، جس کے سب اعضا ٹھیک ہیں، تو یہ نو وارد ٹیچر ہے۔

اب حالت یہ ہے کہ ہر طالب علم اسے زہرناک نظروں سے دیکھتا ہے، اسے گھورتا ہے اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا ہے۔ ظاہر ہے جہاں سب عیب دار ہوں، وہاں انہیں ایک بے عیب کیوں کر برداشت ہوگا۔ یوں ہر کوئی اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا اور گزر جاتا۔ سب کی شدید خواہش تھی کہ کبھی ان کا بس چلے تو اسے اپنے جیسا بنا دیں۔ خیر وقت گزرتا رہا۔ ان میں سے ہر کوئی موقع کی تاک میں تھا اسے اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے۔

ایک دن یوں ہوا کہ رات کی گہری تاریکی تھی۔ ٹیچر کسی کام کی غرض سے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ پیچھے سے کسی نے زور کا دھکا دیا اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتا نیچے آ رہا۔ جب نیچے گرا تو اس وقت اس سے اٹھا نہ گیا۔ صبح ہوئی تو بھیڑ لگ گئی۔ اس کا وہ دوست بھی آ گیا جس نے اسے یہ ملازمت دلوائی تھی۔ وہ اسے گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔ دورانِ علاج معلوم ہوا کہ جناب کی ریڈھ کی ہڈی کے دو تین مہرے کھسک چکے ہیں۔ ایک ماہ کے بعد جب وہ ہسپتال سے سکول آیا تو وہیل چیئر پہ بیٹھا تھا۔ اب یہ ویل چیئر ساری زندگی کے لیے اس کی ساتھی بن چکی تھی۔ وہیل چیئر پہ ہی بیٹھا وہ کلاس پڑھاتا اور اسی پہ بیٹھا وہ کہیں آتا جاتا تھا۔ اب پورے اسکول میں ہر بچے کے چہرے پہ اطمینان تھا۔ چہروں پہ جو ہر دم کی الجھنیں رقصاں تھیں، وہ ہوا ہو چکی تھیں۔ تسکین کی ایک لہر پورے سکول میں دوڑ گئی تھی۔ کیونکہ اب ان کے سامنے ان کا استاد کوئی اجنبی نہیں رہا تھا، انہی کا سا لگ تھا۔ اب ہر کسی کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی تھی۔

یہ کہانی میں نے عرصہ ہوا سسپنس ڈائجسٹ میں پڑھی تھی۔ سو اس کا خلاصہ لکھ ڈالا۔ یہ کہانی ہمیں حسد کی گتھیاں سلجھاتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ جو بندہ جس نعمت (دولت، عزت، صحت، منصب وغیرہ) سے محروم ہو، اس کے آگے اپنی وہی نعمت مت ظاہر کریں۔ ایسا کرنا گویا اس کے زخم کریدنا اور اس سے بددعاؤں کی درخواست کرنا ہے۔

یاد آیا استاد پروفیسر نور محمد صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ چرچل ایک بار گاڑی میں کہیں جا رہا تھا۔ سڑک پہ ایک کبڑی بڑھیا لاٹھی کے سہارے جا رہی تھی۔ چرچل نے گاڑی سے اتر کر بڑھیا سے کہا کہ اماں جی! میں برطانیہ کا وزیر اعظم ہوں۔ کہیے! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں، اس نے چرچل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: برطانیہ کی سب عورتوں کے کُب نکال دے۔ چرچل نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ حیرت زدہ رہ گیا کہ مائی نے یہ کیا کہہ دیا۔

پس خدارا! نعمتیں چھپائیں۔ بلا وجہ محروموں کے سامنے ان کی تشہیر کرکے اپنے آگے کانٹے مت بکھیریں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali