Hakim Wo Jo Mujremeen Ke Liye Sakht Dil Ho
حاکم وہ جو مجرمین کے لئے سخت دل ہو

ہر منصب کے لیے ایک خاص اہلیت درکار ہوتی ہے جو اس منصب سے متعلقہ ہوتی ہے۔ اقتدار کا منصب ایک ایسا منصب ہے جس کے لیے بیک وقت رحم دلی بھی درکار ہے اور سخت دلی بھی۔ رحم دلی کمزوروں کے لیے اور سخت دلی شاہ زوروں کے لیے۔
بات یاد رکھیں! جو حاکمِ وقت مجرمین کے لیے سخت دل نہ ہو وہ ٹھیک سے حکومت نہیں کر سکتا۔ ایک قابل حکمران کے لیے ضروری ہے کہ گنہگار اس سے کانپیں اور باغی اس سے ڈریں۔ آج ایک ایسے ہی حکمران کے عدل کا ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے چلا ہوں، جو کمزوروں کے لیے رحم دل تھا اور شاہ زوروں کے لیے سخت دل تھا۔
اس کے دور حکومت میں مجرم اپنے جرم کی سزا نہ پائے، ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔ مجرم اس کا اپنا ہو یا پرایا، برتر ہو یا کمتر، سزا کے وقت اس کا عدل حرکت میں آتا اور مجرم پہ کوڑا برستا۔ ان کی اسی سخت دلی کا نتیجہ تھا کہ 22 لاکھ مربع میل کے ایک وسیع و عریض علاقے میں 10 سال حکومت کی اور اس لمبے عرصے میں کوئی بغاوت جنم نہیں لے سکی۔ یہ نہیں کہ باغی نہیں تھے۔ تھے، مگر ہمت نہیں تھی کہ بغاوت کر سکیں۔ جو بندہ عدل کرتے وقت اپنوں کو معاف نہ کرے وہ پرایوں کو کر سکتا ہے! تو ملاحظہ کیجیے واقعہ حضرت عمر کے شہکار عدل کا۔۔
حضرت عمرو بن عاصؓ مصر کے گورنر تھے۔ حضرت عمرؓ کو ایک مصری نے شکایت کی کہ ہم گھوڑا دوڑ کا مقابلہ کر رہے تھے اور میرا گھوڑا عمرو بن عاصؓ کے بیٹے سے آگے ہوا تو اس کے بیٹے نے مجھے کوڑے سے مارا کہ پیچھے ہو جاؤ۔ میں بڑے باپ کا بیٹا ہوں، میں گورنر کا بیٹا ہوں۔ امیر المومنین! مجھے انصاف چاہیے۔
یہ سنتے ہی حضرت عمر غضب میں آ گئے۔ فوراََ عمرو بن عاص کو خط لکھا کہ تم اپنے بیٹے کے ساتھ فوراََ مدینہ پہنچو۔ عدالت لگ گئی۔ جب باپ بیٹا مدینہ پہنچے تو حضرت عمرؓ نے اس مصری لڑکے کو کوڑا دیا اور فرمایا کہ مار اس بڑے باپ کے بیٹے کو۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ پہلے ہم چاہتے تھے کہ یہ لڑکا اسے مارے۔ لیکن اس نے اتنا مارا کہ اب ہمیں عمرو بن عاص کے بیٹے پہ ترس آنے لگا۔ خیال ہوا کہ اب اسے چھوڑنا چاہیے۔
یہاں سے حضرت عمر کا عدل ایک نیا موڑ لیتا ہے۔ تاریخ کا ایک ایسا باب رقم کرتا ہے کہ جس سے متاثر ہو کر دنیا کا بڑے سے بڑا دانشور، بڑے سے بڑا حاکم ان کی بارگاہ میں عقیدت سے سر جھکا دے۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ نے مصری سے کہا کہ اس کے باپ کو بھی مارو۔ کیونکہ اس باپ کی وجہ سے اس کے بیٹے نے یہ جرات کی ہے کہ میں گورنر کا بیٹا ہوں۔
لیکن اس مصری نے عمرو بن عاصؓ کو معاف کیا اور لوگوں نے بھی سفارش کی کہ باپ کی تو کوئی غلطی نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ایک تاریخی جملہ کہا اور فرمایا: عمرو بن عاص! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے۔ حالانکہ ان کی ماؤں نے تو انھیں آزاد جنا ہے۔
جرم اور بغاوت کے باب میں یہ تھی وہ سختی، جس نے حضرت عمر کی حکومت کو استحکام بخشا۔ جو حاکم اپنے دل میں مجرمین کے لیے نرمی رکھتا ہے، وہ حکمرانی کے تقاضے ٹھیک سے پورے نہیں کر سکتا۔ اس کے زیرِ اثر اس کی رعایا بےسکون رہے گی۔ انتشار اور افراتفری کا زہر ایسے سماج کی رگوں میں گردش کرکے اسے اپاہج بنا دے گا۔

