Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Gulukar Muhammad Aziz, Apne Fan Aur Shakhsiyat Ke Aaine Mein

Gulukar Muhammad Aziz, Apne Fan Aur Shakhsiyat Ke Aaine Mein

گلوکار محمد عزیز، اپنے فن اور شخصیت کے آئینے میں

بالی ووڈ اور لالی ووڈ انڈسٹری کی ابتدا جب سے ہوئی ہے، تب سے اب تک بڑے بڑے گلوکار، بڑے بڑے سنگر آئے: محمد رفیع، بڑے غلام علی خان، ادت نارائن، کشور کمار، کمار سانو، شبیر کمار وغیرہ۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ ان لوگوں نے اپنی دلکش آواز کا جادو جگایا اور ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنایا، مگر جو لذت محمد عزیز کی آواز میں ہے وہ کسی اور کی آواز میں نہیں ہے۔

دلکش گیتوں کے حوالے سے اور سُر بکھیرنے کے حوالے سے دل کی نگری میں اگر کسی کو بسایا جا سکتا ہے، تو وہ صرف محمد عزیز ہے۔ محمد عزیز کے گیت ایک قسم کا سحر سا طاری کر دیتے ہیں۔ انھیں سنتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی منتر پڑھ کر کسی پہ پھونک رہا ہے اور وہ شخص آہستہ آہستہ اس کے زیرِ اثر آ رہا ہے۔ یعنی اپنی دنیا سے نکل کر اس کی دنیا میں جا رہا ہے۔ محمد عزیز جب اپنے دلکش سر بکھیرتا ہے تو ماحول میں خوشبوئیں سی بھر جاتی ہیں، فضا معطر سی لگنے لگتی ہے، گردوپیش کی ہر چیز گنگنانے لگتی ہے۔ پھر وہ شخص ہوتا ہے اور محمد عزیز ہوتا ہے۔ بیچ میں سے سارے حوالے نکل جاتے ہیں۔

خدا لگتی بات ہے محمد عزیز کے گلے سے نکلنے والے گانے کے بول، بولوں کا ایک ایک لفظ دلوں میں یوں اترتا ہے جیسے پانی ریت میں اترتا ہے۔

اس ضمن میں یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ درد بھرے گیت کو اگر کوئی گلوکار پورے انصاف کے ساتھ گا سکتا ہے تو وہ صرف محمد عزیز ہے۔ اس امر میں بڑے سے بڑا گایک، محمد رفیع، کشور کمار، مکیش، ادت نارائن، کمار سانو، عاطف، راحت فتح علی وغیرہ وغیرہ ان کے معیار کو نہیں پہنچ سکتا۔ نہیں یقین تو یہ گانا سن لیں۔ "دنیا میں کتنا غم ہے" کوئی سنگر یہی گانا اسی انداز سے گا کر دکھائے۔ اس لیے کہ محمد عزیز کا گلا خاص بنا ہی اس کے لیے ہے۔ اللہ تعالی نے جب اس عظیم گایک کا گلا خلق کیا، تو اس کا ڈیزائن کچھ اس انداز سے بنایا کہ یہ غم کے گیتوں کو بہت دلکش انداز سے گا سکے۔ اس کے حلق میں بنی رگوں میں خدا کی ذات نے ایسے میٹھے درد کی سوغات رکھی ہے کہ غم کی شاعری اس کے حلق سے درد کی یہ لذت بھری سوغات لے کر نکلتی ہے، تو ہمیشہ کی زندگی پا جاتی ہے۔ "دنیا میں کتنا غم ہے" برسوں پرانا گانا ہے، مگر آج بھی زندہ ہے اور صدیوں تک زندہ رہے گا۔ جب تک گیت سنگیت کے دیوانے موجود ہیں، یہ ان کے دلوں میں بسا رہے گا۔

اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں! محمد رفیع صاحب غم کا یہ گانا اس طرح گا سکتے تھے! کشور کمار صاحب، کمار سانو صاحب، ادت نارائن صاحب۔ ان میں سے کوئی اس معیار کو پہنچ سکتا تھا!

یہ تو ہوگیا وہ تخصص جو قدرت کی طرف سے محمد عزیز کو حاصل ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ محمد عزیز کے گیتوں میں یہی خاصیت ہے، تو آپ غلطی پہ ہیں۔ صرف غم کی شاعری یا درد بھرے گیت ہی نہیں، پیار محبت کے بولوں میں اپنے دلکش سر بکھیرنے میں بھی محمد عزیز اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

نہیں یقین تو یہ گانے سن لیں:

1۔ "بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے"

2۔ مے سے مینا سے نہ ساقی سے"

3۔ "مہکے ہوئے تیرے لب کے گلاب"

4۔ "سونے جیسا من تیرا"

5۔ سن اے بہار وغیرہ وغیرہ۔

تیسرا جو وصفِ خاص محمد عزیز کو قدرت کی طرف سے ملا ہے، وہ ہے بہت اونچی لے کا گانا اس ڈھب سے گانا کہ دل آواز کی طرف آپ سے آپ کھنچتا چلا آئے۔ اونچے سروں کے گیت گاتے وقت عام سنگروں کی آواز یا تو پھٹ یا دب سی جاتی ہے یا پتلی ہو جاتی ہے یا پھر دو شاخہ سی ہو جاتی ہے۔ ایسے گانوں میں حلق کو بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ جیسے "متوا بھول نہ جانا"، "اے میرے دوست لوٹ کے آجا" ان اونچے سروں کے گانوں کو اونچے سروں میں محمد عزیز ہی گا سکتے تھے اور کسی گایک کے بس کی بات نہیں تھی۔ آپ تصور میں کوئی گلوکار لائیں اور پھر یہی گانے اس سے گوائیں۔ آپ بے ساختہ کہہ اٹھیں گے: "وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی"۔

چوتھا جو خاص وصف اوپر والے کی طرف سے میرے اور آپ کے محبوب سنگر محمد عزیز کو ملا ہے، وہ ہے غزل کی گائیکی کے لیے موزوں گلا۔ محمد عزیز بڑے رکھ رکھاؤ سے، بڑے ہی خوبصورت انداز سے غزل گاتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر یہ غزلیں سن لیں: ایک اندھیرا لاکھ ستارے، چھائی ساون کی گھٹا ایک جام اور پلا۔ یہ غزلیں ذرا دھیمے سروں کی ہے۔ اونچے سروں کی غزلیں یہ ہیں: اے مری محبت سن میں یہ مشورہ دوں گا، دوسری غزل "میں بھی تو چکھوں مجھ کو چکھا میری اپنی بوتل کی دارو پلا" تیسری غزل "ادا ایک جادو نظر ایک بجلی"۔

پانچواں جو امتیاز اللہ تعالیٰ نے محمد عزیز کو ودیعت کیا ہے، وہ ہے قوالی کو، صوفیانہ کلام کو بہت سوز و گداز سے پڑھنا۔ بطورِ دلیل یہ قوالی سن لیں: پروردگار عالم محتاج ہیں تیرے ہم۔

چھٹی خوبی آپ کی فن سے ہٹ کے ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو خدا کی طرف سے ہر فنکار کو نصیب نہیں ہوتی۔ وہ ہے آپ کا حسنِ اخلاق۔ ان کا سینہ قدرت نے اپنے خاص کرم سے کدورت اور عداوت سے ہمیشہ پاک رکھا۔ کبھی کسی کا گلہ نہیں کیا، کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا، جتنے کا چیک ملا خاموشی سے لیا اور گھر آ گئے۔ بالی ووڈ نے اسے اہم مواقع پہ ہمیشہ نظر انداز کیا، کسی بڑے فلمی ایونٹ میں یا کسی تقریب میں انھیں نہیں بلایا جاتا تھا۔ بےچارہ صبر کے گھونٹ پی لیتا، مگر دل میں گرہ رکھتا اور نہ پیشانی پہ بل لاتا۔ بہت سادہ طبیعت پائی تھی محمد عزیز نے۔

محمد عزیز کی عظمت اس بات میں بھی پنہاں ہے کہ اس کے گائے گیتوں کو کوئی اس درجے میں نہیں گا سکتا، مگر یہ دوسروں کے گیتوں کو سے کہیں بہتر انداز میں گا سکتا ہے سوائے چند ایک گیتوں کے۔

محمد عزیز کی معصومیت دیکھیں! ایک بار کشور کمار کے سامنے محمد عزیز نے کوئی گھی والی چیز کھائی اور پھر اس کے بعد پانی لیا۔ کشور نے بہت حیرانی سے پوچھا کہ عزیز! اس سے تو گلا خراب ہو جائے گا۔ محمد عزیز نے کہا: دادا! میں کون سا بڑا سنگر ہوں۔ یہ سادگی دیکھ کشور بولے: یار تو تو کمال ہے۔ کمال ہے تو عزیز۔

محمد عزیز لتا جی کی طرح اپنی ذات میں معصومانہ ادائیں رکھتے تھے۔ ہزاروں گانے ان کے تھے۔ جو چھین کر دوسرے گلوکاروں منہر، واڈکر، مکیش اور کشور وغیرہ سے گوائے گئے۔ اس بندے نے مگر اف تک نہیں کی۔

محمد عزیز کی آواز میں لذت اور چاشنی اس سطح کی ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گانا "آج ہم کو آدمی کی پہچان ہوگئی" میں ان کی آواز کشور صاحب کی آواز کو صاف شکست دے رہی ہے۔ انڈسٹری نے مگر اسے پچھلی صفوں میں ہی رکھا۔ اس کے باوصف آپ نے کبھی کسی کا گلہ نہیں کیا، کبھی کسی سے اپنا تقابل نہیں کیا۔ انڈین فلم انڈسٹری نے ہمیشہ اسے نظر انداز کیا۔ ایک بار صرف اتنا کہا: فلم "خدا گواہ" میں میرے سب گانے ہٹ ہوئے۔ اس کے بعد مجھ سے دوری اختیار کر لی گئی۔ معلوم نہیں یہ سورج ڈوبا کیسے! بہت معصوم، بہت معصوم تھے میرے محمد عزیز، کسی چھوٹے بچے کی طرح۔ خدا اسے غریقِ رحمت کرے۔

سب سے بڑا ستم بھلا ہے کیا ہوا! جب اس کی عمر کوئی پندرہ سولہ سال کی تھی اور اس وقت اس کا گلا بہت شفاف تھا، تو اس وقت اگر اسے انڈسٹری لیتی تو یہ گانوں میں بہت جادو جگاتا۔ بڑی مشکلوں سے بےچارے کو انڈسٹری میں جگہ ملی۔ وہ بھی خدا بھلا کرے موسیقار انو ملک صاحب کا، جنھوں نے انھیں مرد فلم کا ٹائٹل سونگ گانے کا موقع دیا۔ وگرنہ تو یہ دل ہار بیٹھے تھے۔ یہیں سے ان کی گانے کی شروعات ہوئی۔

ایسے ہزاروں گانے ہیں جو محمد عزیز کے تھے اور جنھیں یہ کہیں بہتر انداز سے گا سکتے تھے، مگر انھیں نہیں دیے گئے۔ مثلاً کہیں مجھے پیار ہوا تو نہیں ہے، شیشے کی عمر پیالے کی، دل دینے کی رت آئی، نہ کجرے کی دھار، ایسی دیوانگی دیکھی نہیں، کبھی بھولا کبھی یاد کیا وغیرہ وغیرہ۔

محمد عزیز قدرت کا شاہکار ہے۔ لگتا ہے بڑی فرصت کے لمحات میں خدا نے اس کا حلق بنایا اور پھر بڑے چاؤ سے اس میں رگوں کی ترتیب رکھی، پھر اسے اپنی آواز کا ہلکا سا ٹچ دیا۔ یوں ایک ایسا شہکار معرض وجود میں آیا جس نے ایک دنیا کو خدا کی یہ عطا کردہ سوغات دی۔ حدیث میں ہے: اللہ خوبصورت ہے۔

میں اس سے مراد ہمیشہ خدا کا وجود لیتا رہا۔ محمد عزیز کو جب میں نے غور سے سنا اور اس کی آواز کی باریکیوں کو سمجھا اور پھر دوسرے تمام گلوکاروں سے اس کا تقابل کیا تو جان پایا کہ محمد عزیز تو خدا کی بہت بڑی نعمت کا نام ہے۔ نیز اس بات کا پتا چلا کہ جس خدا نے اپنے اس بندے کی آواز اتنی خوبصورت بنائی ہے، اس کی اپنی آواز کا عالم کیا ہوگا۔ مخلوق کی آواز کا معیار یہ ہے۔ خالق کی آواز کے معیار کا اندازہ خود لگا لیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari