Dr. Wo Ji Marz Ki Tashkhees Bhi Kare Aur Ilaj Bhi
ڈاکٹر وہ جو مرض کی تشخیص بھی کرے اور علاج بھی

زوال یافتہ قوموں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں مسائل کی درست تفہیم نہیں ہوتی۔ ان کی بحثیں لایعنی اور ان کی باتیں غیر منطقی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے امراض کی صحیح تشخیص کرنے کی بجائے اس کی علامات پہ بات کریں گے، مثلاََ کبھی وہ محکمہ پولیس میں بڑھتی کرپشن اور پولیس کے غلط رویے کو زیر بحث لاتے ہوئے کہیں گے کہ اگر ہمارے سیاستدان پولیس کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ میں مداخلت نہ کریں، اگر پولیس میں میرٹ کی بنیاد پہ بھرتی ہو تو ہماری پولیس چند ماہ میں ٹھیک ہو سکتی ہے۔
کبھی کہیں گے کہ صحت کا سارا شعبہ برباد ہوا پڑا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی وہ سہولتیں نہیں ہیں، جو مہنگے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہیں۔ اسی طرح سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار پست ہے۔ اگر ہمارے سب سیاستدانوں پہ لازم کر دیا جائے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں اپنا علاج کروائیں گے اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو داخل کروائیں گے تو یہ دونوں ادارے ایک دو سالوں ہی میں ٹھیک ہو سکتے ہیں۔
کبھی کہیں گے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت آ جائے یا موروثیت کا خاتمہ ہو جائے تو ملک کا کوئی ادارہ پارلیمنٹ میں مداخلت نہ کر سکے۔ کبھی کہیں گے کہ ہر ادارے میں کرپشن سرایت کر چکی ہے۔ اگر کرپشن ختم کر دی جائے تو چند سالوں میں ملک کا قرض بھی اتر جائے گا اور مہنگائی بھی کم ہو جائے گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی "دانا" چوہے نے اپنی برادری سے کہا کہ اگر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے، تو ہم بچ سکتے ہیں۔ اس پر ایک نے کہا: باندھے گا کون؟
کئی لوگ تو جوش میں آ کر یہ بھی کہہ گزرتے ہیں کہ کرپشن پہ اگر پھانسی کی سزا مقرر کر دی جائے تو یہ مسئلہ چند دنوں کی مار ہے۔ کبھی کہیں گے کہ میڈیا کے لوگ قوم تک صحیح خبر نہیں پہنچاتے۔ یہ تجزیوں کے نام پہ اپنی خواہشات بتاتے ہیں۔ اگر میڈیا کا قبلہ درست کر دیا جائے تو ملک کے حالات کچھ بہتر ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح فوج، عدلیہ سمیت ہر ادارے کے بارے میں لوگ کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ جتنے ارشادات ہیں، یہ مرض کی تشخیص نہیں۔ یہ اس مرض کی علامات ہیں جو آج پورے قومی وجود کو چمٹا ہوا ہے۔ مستند معالج وہ ہے، حاذق حکیم وہ ہے، مسیحا وہ ہے، جو مرض کی علامات کا ذکر کرنے کی بجائے مرض کی تشخیص بھی کرے اور ساتھ اس کا درست علاج بھی تجویز کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا وہ مستند معالج نہیں۔ جب تک مرض کی تشخیص نہ ہو اور پھر اس کے مطابق علاج نہ ہو تب تک علامات اپنی جگہ پہ قائم رہیں گی۔ دنیا بھر کے ماہرین بلا لیں۔ وہ ان علامت کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ انہیں ختم کرنے کے لیے جتن کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر جگر یا کینسر کا علاج کرنے کی بجائے ان کی علامات کو ختم کرنے کے لیے مریض کو دوا دینا شروع کر دے۔ بھلا بتائیں! کینسر یا ٹی بی کے مرض کی تشخیص اور اس کے صحیح علاج کے بنا یہ علامات ختم ہو سکتی ہیں!
بھلے بندو! ملک کا اصل مسئلہ یہ علامات نہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ ملک کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، مسئلہ میرٹ کا نہ ہونا نہیں، مسئلہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا نہ ہونا نہیں۔ یہ سب علامات ہیں اس مرض کی جس کی تشخیص کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں۔ اس ملک کا کیا بڑا صحافی اور کیا چھوٹا صحافی، کیا پڑھا لکھا اور کیا ان پڑھ، ہر کوئی اپنی تان انہی علامات کے ذکر پہ توڑ رہا ہے۔ ملک کا اصل مسئلہ عدم استحکام ہے، ملک کا اصل مسئلہ پارلیمنٹ کی کمزوری ہے۔ دراصل پارلیمنٹ کی طاقت آج مزید دو اداروں میں بٹ چکی ہے۔ ماضی میں فوج کا ادارہ بلا شرکت غیرے طاقت کا اصل مرکز تھا۔ جی ایچ کیو پارلیمنٹ کا دوسرا نام تھا۔ ملک کی داخلہ خارجہ پالیسیاں وہیں تشکیل دی جاتی تھیں۔ عدلیہ ہمیشہ فوج کی باندی رہی۔ آج مگر صوت حال وہ نہیں رہی۔ ماضی کی بے بسی کی تصویر بنی عدلیہ آج خم ٹھوکر میدان میں ہے۔ جج حضرات نے فوج سے وہ طاقت بہت حد تک چھین لی ہے جو کبھی اس کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔
ججوں کو دیکھتے ہوئے میڈیا کے اینکر، صحافی اور یوٹیوبر بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ یوں فوج کی بچی کھچی طاقت سے انہوں نے بھی حصہ بقدر جصہ پایا ہے۔ ججوں کی طرح یہ طبقہ بھی آج دندنا رہا ہے، للکار رہا ہے، مولویوں کی طرح فتوے پہ فتویٰ داغ رہا ہے۔ ہاں! چوتھے ادارے کا نام میں بھول گیا اور وہ ہے طبقۂ ملّا۔ پارلیمنٹ کی طاقت کا کچھ حصہ ان کے پاس بھی ہے اور یہ حصہ آج کا نہیں، مارشل لا ادوار سے بھی پہلے کا ہے۔
لب لباب اس سارے مدعا کا یہ ہے کہ پارلیمنٹ، جو ملک کا فیصلہ ساز ادارہ ہے، اس کی طاقت پانچ حصوں میں بٹ چکی ہے۔ پہلے نمبر پہ عدلیہ کے جج حضرات ہیں۔ دوسرے نمبر پہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے نام نہاد صحافی اور یوٹیوبر ہیں۔ تیسرے نمبر پہ مولوی حضرات ہیں۔ چوتھے نمبر پہ فوج ہے اور پانچویں نمبر پہ سیاستدان ہیں۔ ایک کھچڑی سی پکی ہے اور افرا تفری کا عالم ہے۔ ہر ادارہ زیادہ سے زیادہ طاقت لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
جب ایسا گھمسان کا رن پڑا ہو، جب حصولِ طاقت کے لیے مہا بھارت لڑی جا رہی ہو، جب پانچ ادارے "ھل من مزید" پکارتے ہوئے باہم گتھم گتھا ہوں، جب فیصلہ سازی کا مرکز پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ ہو، میڈیا ہو، ملّا ہو، فوج ہو اور آخر میں سیاستدان ہوں، تو ایسے میں ملک کا بیڑا غرق ہی ہوگا۔ ملک کو اگر آپ گاڑی سے تشبیہ دیں تو اس کی ڈرائیونگ سیٹ پہ صرف سیاست دان ہی جچتے ہیں۔ اب مزید چار ادارے سٹیرنگ پہ قبضہ جمانے کے لیے سیاست دانوں سے لڑ بھڑ رہے ہیں۔ تو پھر ایسی گاڑی اپنی منزل پہ وقت پہ نہیں پہنچ پائے گی۔ بلکہ اس کے ایکسیڈنٹ ہونے کا بہت امکان ہے۔ ایسی گاڑی جھٹکے کھاتی، ہچکولے کھاتی چند قدم آگے جائے گی تو چند قدم پیچھے بھی آئے گی۔ اگر سٹیرنگ کی اس چھینا جھپٹی میں شدت آ جائے تو گاڑی کو ریورس گیئر لگے گا۔ گاڑی کا منہ بھلے ہی آگے کی طرف ہو، مگر یہ چلنا پیچھے کی طرف شروع کر دے گی۔
پاکستان کا المیہ دیکھیں۔ جیسے آج ملک میں نیم حکیموں کی بھرمار ہے، ایسے ہی نیم صحافیوں اور نیم دانشوروں کی بھی بھرمار ہے۔ جیسے نیم حکیم مرض کی تشخیص کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کی علامات کا علاج کر رہے ہیں، ایسے ہی یہ نیم صحافی یا نیم دانشور بھی ملک کے اصل مسئلے پارلیمنٹ میں ججوں، میڈیا سے وابستہ اینکروں اور یوٹیوبروں، مولویوں اور فوج کی مداخلت کو زیرِ بحث نہیں لاتے بلکہ اس کے نتیجے میں جو کرپشن اور لاقانونیت بڑھ رہی ہے، اس پہ سارا فوکس کیے ہوئے ہیں۔ جب تک پارلیمنٹ فعال نہیں ہوگی، جب تک سیاست دانوں کو کھل کے کام کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا، جب تک سارے ادارے اپنی آئینی حدود کے پابند نہیں ہوں گے، تب تک اس ملک کی گاڑی پٹڑی سے اتری رہے گی، تب تک ہماری یہ آہ و زاری یوں ہی ہوتی رہے گی۔ کرپشن کے معاملے میں بہت بھد اڑا لی آپ نے سیاست دانوں کی۔ دیگر اداروں کی خبر لی؟ مذہب کی خدمت کی آڑ میں رائج کرپشن اگر آپ جان جائیں تو آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ باقی اداروں کا بھی یہی حال ہے۔
نوٹ: 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد بہت حد تک ججوں کا دماغ ٹھکانے آ گیا ہے۔ حدود سے متجاوز ان کی حیثیت اب اوقات آشنا ہوگئی ہے۔ وگرنہ ماضیِ قریب میں تو انھوں نے اپنے آئینی اقدامات سے ادھم مچا رکھا تھا۔ ثاقب نثار صاحب عدلیہ کا کام چھوڑ کے ڈیم بنانے کے لیے دوڑ پڑا۔ فیر بن گیا ڈیم ثاقب نثار صاحب؟ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

