Depression Ke Mareezon Ke Liye Lata Mangeshkar Ka Aik Clip
ڈپریشن کے مریضوں کے لیے لتا منگیشکر کا ایک کلپ

پریشانی میں مبتلا ہر شخص سمجھتا ہے کہ اس کی پریشانی دوسروں سے سوا ہے۔ اس سوچ کے دو زاویے ہیں۔ ایک تو وہ خیال کرتا ہے کہ جو افتاد مجھ پہ پڑی ہے، جس مصیبت میں میں مبتلا ہوں، یہ افتاد اور مصیبت کسی اور کے حصے میں نہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے دوسرے لوگوں کو جب دیکھتا ہے تو اسے وہ خود سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مثلاََ معدے کا مریض دیکھتا ہے کہ جب دوسروں کے معدے ٹھیک ہیں تو میں ہی اس مرض کا شکار کیوں ہوں۔ اس کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ وہ مرض کا خیال کرتے ہوئے خود پہ خدا کی دیگر تمام نعمتیں بھول جاتا ہے۔ اس کی سوچوں کا مرکز اس کا مرض بن جاتا ہے۔
اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے یہ خیال کانٹے کی طرح اسے چبھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ پریشانی کی وجہ معدے کی کمزوری ہو۔ غربت، عزت کی کمی، کسی پیارے کا اسے چھوڑ جانا یا اچھی ملازمت کا نہ ملنا وغیرہ وغیرہ۔ ہزاروں مسائل ہو سکتے ہیں۔ ایک بات کبھی بھولنی نہیں چاہیے کہ کامل زندگی اس دنیا میں بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی دکھ ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اظہار کر دیتا ہے اور کوئی چپ ہو رہتا ہے۔ یہ جتنے بڑے بڑے امرا اور شوبز شخصیات خودکشی کرتی ہیں، اس کے پیچھے گہرے صدمے ہوتے ہیں، جو انھیں توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
اگر کوئی شخص اس لحاظ سے اپنی زندگی سے مطمئن نہیں کہ وہ فلاں نعمت سے محروم ہے تو اس کے لیے لتا منگیشکر کا ایک کلپ میں تجویز کروں گا۔ یہ یوٹیوب پہ آپ کو مل جائے گا۔ اس میں سوال کرنے والا لتا سے سوال کرتا ہے کہ اگر دوبارہ جنم ملے تو لتا نے کہا دوبارہ جنم نہ ہی ملے تو اچھا ہے اور اگر ملا تو میں لتا منگیشکر بننا پسند نہیں کروں گی سوال کرنے والوں کو جھٹکا سا لگا۔ اس کے چہرے پہ حیرت کے آثار ابھرے۔ بے ساختہ اس نے کہا: کیوں؟
لتا نے کہا: لتا کی جو تکلیفیں ہیں، وہ لتا ہی کو پتہ ہے۔
ایک اور انٹرویو میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں کہا: اگر واقعی کوئی پُنر جنم ہے تو بھگوان کرے مجھے پنر جنم نہ ملے اور اگر اسے پنر جنم دینا ہے، تو بھارت میں ہی دے اور چھوٹے سے گھر میں دے اور لڑکی نہیں، لڑکا بنائے۔
پریشاں حال شخص کی سماعتوں میں ان تین فقروں کی گونج ہر وقت رہنی چاہیے، یعنی دوسرا جنم نہ ہی ملے تو اچھا ہے اور اگر ملا تو میں لتا بننا پسند نہیں کروں گی۔ پنر جنم میں بھگوان مجھے لڑکی نہیں، لڑکا بنائے۔
لتا کے متعلق ہمارا تصور یہ ہے کہ اسے دنیا بھر میں شہرت ملی، پوری بالی ووڈ انڈسٹری میں اس کی عزت تھی، دولت بے پناہ اللہ نے اسے دی، صحت مند تھی۔ مگر لتا نے اپنی زندگی کی تلخیوں پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ میرے متعلق آپ جو خیال کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ میں نے بہت خوفناک، بہت تلخ ناک زندگی گزاری ہے۔ لتا کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر تھی۔ میرے غموں کی زحمتیں میری عزت اور شہرت کی نعمتوں پر بھاری تھیں۔ بے وجہ نہیں کہتے: عزت کی دال، ذلت کے گوشت سے ہزار درجے بہتر ہے۔۔ لتا کا کلپ یہی کچھ سمجھا رہا ہے کہ میرے ظاہر پہ نہ جاؤ، میری شخصیت کی بکھری دھجیاں دیکھو۔ اصل لتا یہ ہے۔
پہلے تو ہم لتا کی شخصیت جانچتے ہیں۔ لتا کا لب و لہجہ، اس کا بات جیت کرنے کا انداز، اس کی باڈی لینگویج، یہ سب کچھ صاف بتاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بہت مہذب اور انتہائی شریف النفس تھی۔ جس فلم انڈسٹری سے اس کا پالا پڑا، وہ بہت بے رحم تھی۔ قدم قدم پہ اسے کچوکے لگے، طرح طرح سے اس کی تذلیل کا سامان ہوا۔ ایک تو اس کی انتہائی شرافت اور دوسرے اس کی آواز تھوڑی باریک تھی۔ اس کی وجہ سے بھی اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی نسبت الکا یاگنک، انورادھا پوڈوال، سریکا کپور، سنیدھی چوہان، شریا گھوشال اور سادھنا سرگم وغیرہ کا گلا بھرا بھرا سا تھا۔ نیز وہ کچھ تیز ہوں گی۔ سو ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ ان کے برعکس لتا کو انسانی نفسیات کی اتنی پرکھ نہیں تھی۔ زیادہ ہی شریف تھی۔ اس وجہ سے اس کے کولیگز اور انڈسٹری کے باقی کرتا دھرتا نے اس پہ چڑھائی کیے رکھی۔ دراصل اس قسم کے لوگ دوسروں کو بھی اپنے جیسا خیال کرنے کی وجہ سے بار بار دھوکا کھاتے ہیں۔ لتا خود بتاتی ہے کہ اسے اپنے گیتوں کے پیسے مانگنے نہیں آتے تھے۔ سو انڈسٹری میں بہت سے لوگوں نے اس کے پیسے کھائے۔
سو لتا کے ظاہری روشن پہلوؤں کے پیچھے اس کے باطنی تاریک پہلوؤں کو دیکھیں۔ بہت دولت اور بہت شہرت بھی اس کے غموں کا مداوا نہیں کر پائی۔ میرے خیال میں ساتھیوں کے طعنوں مہنوں اور ان کی طرف سے اس کی راہ میں بچھائے گئے کانٹوں نے اس کی دل پہ گہرے زخم لگائے۔ کمتری کا احساس اور بےبسی کی کیفیت اس کی شخصیت کو کرچی کرچی کرتی رہی۔ ایسے احوال میں اکثر دل کرتا ہے کہ اس زندگی سے تو موت بھلی۔
سو جب کبھی آپ مایوسی کا شکار ہوں، آپ آزردگی کی لپیٹ میں ہوں تو لتا کا یہ کلپ ضرور دیکھیں اور اپنا غم کم کریں۔ لتا کے یہ دو فقرے "دوسرا جنم نہ ہی ملے تو اچھا ہے اور اگر ملا تو میں لتا منگیشکر بننا پسند نہیں کروں گی۔ نیز اگلے جنم میں بھگوان مجھے لڑکا بنائے" آپ کے زخموں پہ مرہم رکھنے کا کام کریں گے۔
روشن خیال یاسر پیر زادہ صاحب نے اسی کلپ کے متعلق اپنے "جنگ" کے کالم میں کیا کمال لکھا: "مجھے زندگی میں جب کوئی دھچکا لگتا ہے، تو میں سوچتا ہوں کہ اگر زندگی اس دھچکے کے بغیر بہترین انداز میں بھی گزر رہی ہوتی تو اس صورت میں بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ میں مطمئن ہوتا۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ چپ چاپ خدا کا شکر ادا کیا جائے کہ ہم دنیا کی اس آبادی میں شامل ہیں، جسے با عزت زندگی گزارنے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا، بہت کچھ جھیلنا نہیں پڑتا۔ (وگرنہ بعض ملازم اپنے صاحبوں (باسز) سے ماں بہن کی ننگی گالیاں تک کھاتے ہیں۔ ملازمت چھوڑ نہیں سکتے کہ گھر کی ضروریات کیسے پوری کریں گے) اگر آپ کا گھر اپنا ہے اور آپ مناسب قسم کی گاڑی کے مالک ہیں، بچے معقول انداز میں پڑھ رہے ہیں، دوستوں کے ساتھ شام اچھی گزر جاتی ہے اور آپ کو یا اہلِ خانہ کو صحت یا کچہری کا کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں تو پھر سمجھیں کہ آپ اکیسویں صدی کی جنت میں رہتے ہیں اور اگر آپ اس طرزِ زندگی کو جنت نہیں سمجھتے تو میں کہوں گا کہ آپ لتا منگیشکر کا انٹرویو میری نظر سے دوبارہ دیکھیں، افاقہ ہوگا"۔

