Compaign Chalane Wale Sahafi Kya Halal Kamate Hain
کمپین چلانے والے صحافی کیا حلال کماتے ہیں

ملک کی قسمتِ خوابیدہ دیکھیں کہ فی زمانہ صحافیوں کی اکثریت ایک خاص ایجنڈے کے تحت صحافت کر رہی ہے۔ ان کا مقصد سوائے پیسے اور شہرت کے، کچھ نہیں۔ اس باب میں مذہب کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ نے ایک مقام پہ فرمایا: اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور دیدہ دانستہ حق کو نہ چھپاؤ۔
دوسرے مقام پہ فرمایا: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔
ایک حدیث میں بھی یہی مضمون اس انداز سے ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: "غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟" اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: "تو تم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے کو) اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے! جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں"۔ (یعنی وہ ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے (صحيح مسلم)
اگر تو صحافی حقائق کی صورت میں خبریں اور معلومات قوم تک پہنچاتا ہے تو اس کی کمائی حلال ہے۔ خبروں کے متعلق ممکن ہے اس کا تجزیہ غلط ہو اور اس سے تاثر یہ ملے کہ یہ فلاں سیاسی جماعت کے حق میں یا اس کے خلاف ہے، مگر یہ قابل معافی ہے اور اگر وہ سیاسی، سماجی یا مذہبی معاملات میں جھوٹ کی آمیزش کرتا ہے تو اوپر کی دو آیات اور اور حدیث کی رو سے اس کی کمائی حرام ہے۔
اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ دودھ ایک پروڈکٹ ہے۔ اگر دودھ فروش اپنی پروڈکٹ میں پانی ملائے یا پاؤڈر سے دودھ بنائے تو اس کی کمائی حرام ہوگی۔ ایسے ہی جو صحافی یوٹیوب، فیس بُک، ٹک ٹاک انسٹاگرام اور ٹی وی شوز میں اپنی صحافت کی پروڈکٹ بیچتا ہے اور اس میں کسی خاص سیاسی جماعت کو جان بوجھ کر ٹارگٹ کرتا ہے، لوگوں کو اس سے متنفر کرتا ہے یا کسی خاص سیاسی جماعت کی کمپین چلاتا ہے، اسے پروموٹ کرتا ہے، بالواسطہ اس کے لیے لوگوں سے ووٹ مانگتا ہے، تو اس کی کمائی حرام ہوگی۔ کیونکہ اس پروڈکٹ کے بدلے میں اسے سوشل میڈیا سے ڈالرز ملتے ہیں اور ٹی وی چینل والے اسے باقاعدہ تنخواہ دیتے ہیں۔ تو اگر آپ کی پیش کردہ پروڈکٹ ہی غلط ہے یا بدنیتی پر مبنی ہے تو اس سے کمایا جانے والا پیسہ حلال کس طرح ہو سکتا ہے!
کیسا المیہ در آیا ہے اس سماج میں کہ صحافت جو کسی دور میں ایک مقدس پیشہ تھا، یار لوگوں نے دولت اور شہرت کی خاطر اس کے تقدس کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔ جس صحافت سے غیر جانبداری کا تاثر ملنا چاہیے تھا، آج وہ کسی خاص سیاسی جماعت کی جانب دار ہو کے رہ گئی یے۔ جس صحافت نے لوگوں میں مثبت سوچ پیدا کرنا تھی، آج وہ ذہنوں میں نفرتیں انڈیل رہی ہے، سماج کو تقسیم کر رہی ہے۔ صحافت کی آڑ میں اہل صحافت نے اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کی کمپین چلا رکھی ہے۔ ان کا ہر ویلاگ، ہر کلپ اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے حق میں ہوگا یا اس کے مخالف سیاسی لیڈروں اور ان کی جماعتوں کے خلاف ہوگا۔
رؤف کلاسرا نے کئی بار کہا اور لکھا: "میرے سامنے کئی صحافی دوست ایک سیاسی لیڈر کو گالیاں دیتے تھے۔ مگر جب وہ ویلاگ کرتے تو اس سیاسی لیڈر کو دیوتا بنا کر پیش کرتے۔ میں نے جب اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کہ قوم جو سننا چاہتی ہے ہم اسے وہی سنائیں گے"۔
یعنی حقائق جائیں بھاڑ میں، ہمیں تو پیسوں سے غرض ہے یا شہرت سے مطلب ہے۔ ایسے صحافیوں کی کمپین کا اندازہ کرنا ہو تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے یوٹیوب چینل کے تمام ویلاگز کے تھم نیل دیکھ لیں، ان کے عنوانات پہ ایک نظر ڈال لیں۔ اگر وہ تاثر دیں کہ موصوف ایک ہی سیاسی جماعت کی عظمت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے، اسی کے لیڈر کو حق و صداقت کی نشانی قرار دے رہا ہے اور اس کے مخالف سیاسی لیڈروں کو ایک مستقل برائی بتا رہا ہے، ملک دشمن قرار دے رہا ہے تو سمجھ جائیں وہ ایک مکار اور دھوکے باز صحافی ہے اور اس کی چینل کی تنخواہ یا سوشل میڈیا سے ملنے والے ڈالرز حرام کے ہیں۔ نیز رسالت مآب ﷺ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

