Chachi Se Shadi, Mazhab, Aqal Aur Molvi Ke Nuqta e Nazar Se
چچی سے شادی: مذہب، عقل اور مولوی کے نقطۂ نظر سے

میرا یہ ماننا ہے کہ مولویوں کی زندگی میں جس بڑے المیے نے جنم لیا، وہ سماج سے ان کا انقطاع ہے۔ یہ ہزاروں خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسی سے فکری مغالطے جنم لیتے ہیں، اسی وجہ سے بندہ عام لوگوں کی ضروریات سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ان کے احساسات جان سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں وہ دین کا درست فہم بھی نہیں پا سکتا۔ وہ کسی آیت یا روایت کے باطن میں جھانک کر اس کے اصل معنی تک رسائی نہیں پا سکتا۔ وہ ظاہر کی آنکھ سے جو کچھ دیکھتا ہے، اسے حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ معاشرے سے اس کا کٹنا اس سے غلط فیصلے کرواتا ہے۔
اس سے جڑا ان کا ایک غیر شرعی فتویٰ ہے، جسے یہ شرعی کہنے پہ مصر ہیں۔ وہ یہ کہ چچی سے شادی جائز ہے۔
12 تا 18 ستمبر کا "اہلحدیث" شمارہ میرے سامنے ہے۔ اس میں چچی سے شادی کے جواز میں حضرت علی رض کے بھتیجے عبداللہ بن جعفر کا عمل پیش کیا گیا ہے۔ انھوں نے حضرت علی رض کی سابقہ بیوی سے شادی کی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ طلاق یافتہ تھی۔ حضرت علی رض نے انھیں چھوڑ دیا تھا۔ جب چچا سے تعلق ختم تو پھر وہ چچی رہی کہاں! چچی، چچا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں بیوہ چچی کا ذکر ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک منفرد واقعہ ہے، جو اس وقت اور بعد کے زمانوں کے لیے کوئی چلن نہیں بنا، رواج نہیں بنا۔ بس ایک بندے نے شادی کی اور اس کے بعد کہانی ختم۔
تیسری بات یہ ہے کہ وہ قبائلی زمانہ تھا۔ تب 18 سال سے کم عمر لڑکی سے بھی شادی رچا لی جاتی تھی۔ آج تعزیراتِ پاکستان کے تحت یہ ایک جرم ہے اور جس کی سزا جیل اور جرمانہ ہے۔
چوتھی بات یہ کہ مذہب کا پورا مقدمہ عقل پہ کھڑا ہے۔ عقل چچی سے شادی کو پسند نہیں کرتی۔
دراصل جو غیر سائنسی ہو جائیں، انتہا پسند ہو جائیں، وہ ایک مخصوص نقطۂ نظر کے حامل ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی چیز یا تو جائز ہے یا ناجائز ہے، حق ہے یا باطل ہے۔ وہ کسی کو فرشتہ قرار دیں گے یا شیطان۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جواز اور عدمِ جواد کے درمیان بھی کسی چیز کو رکھا جا سکتا ہے۔ ہر شے کو حق و باطل کے پیمانے پہ نہیں پرکھا جا سکتا۔ سوچ کا یہ المیہ غیر سائنسی معاشروں میں جنم لیتا ہے۔
پہلے ہم چچی کے رشتے کو سمجھتے ہیں۔ یہ رشتہ عام غیر محرم لڑکیوں کی طرح نہیں۔ اس کے ساتھ ایک محرم رشتہ جڑا ہے اور وہ ہے چچا، جو باپ کے قائم مقام ہے۔ اس بنا پر چچی کے رشتے میں حرمت کی بو پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس رشتے کو اس کے میاں کا بھتیجا اگر رشتۂ ازدواج میں بدلے، تو میرے خیال میں اس کے لیے ڈھیر شرم کی بات ہے۔ اس لیے کہ ایک محرم رشتے کے ساتھ ملنے کی وجہ سے اس رشتے کی حلت ہلکی سی داغدار ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک مقناطیس لوہے کو اپنے ساتھ دیر تک چپکائے رکھے تو اس لوہے میں معمولی سی مقناطیسیت ضرور پیدا ہو جائے گی۔ بیشک وہ مقناطیس نہیں، مگر اس نے اس کا اثر تو لیا ہے۔ ایسے ہی چچی بھلے غیر محرم ہے، مگر محرم کے ساتھ مل کر اس میں ادنٰی سی smell تو پیدا ہوئی ہے۔
اس کی دوسری مثال علامہ کا لفظ ہے۔ عربی میں اسے علامۃ کہتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں بہت بڑا عالم۔ پورے قرآن میں یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ ہاں! علّام کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ معنی دونوں کے ایک ہی ہیں۔ پہلا لفظ اللہ کے لیے اس لیے نہیں کیونکہ اس کے آخر میں گول ت ہے، جو تائے تانیث کی علامت جانی جاتی ہے۔ یعنی یہ مونث لفظوں کے آخر میں آتی ہے، جیسے عائشۃ۔ پس علامہ کا لفظ ہے تو مذکر مگر اس سے تائے تانیث کی بو آتی ہے۔ اللہ چونکہ مذکر ہے، اس لیے تانیث کی مہک کی وجہ سے اسے اللہ کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
پس چچی، تائی اور ممانی بھلے محرم رشتوں کی ذیل میں نہیں آتیں، مگر ان کے ساتھ محرم رشتے (چچا، تایا، ماموں) جڑنے کی وجہ سے ان میں حرمت کی بو پیدا ہو جاتی ہے۔ پس انھیں مائیں ہی سمجھیں۔
عقلِ انسانی ان رشتوں سے کراہت محسوس کرتی ہے۔ دیکھیں! ہر شے کو جواز یا عدمِ جواز کی کیٹیگری میں نہیں رکھا جا سکتا۔ کچھ چیزیں، عادتیں اپنی ذات میں جائز ہونے کے باوجود سماج کی نظروں میں ناجائز ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک بار ایک موٹر سائیکل سوار بارہ بارہ فٹ لمبے پانچ سریے اپنے موٹرسائیکل کے ایک طرف باندھ کر محلے میں داخل ہوا تو پاس کھڑے رکشے والوں نے اسے نفرت بھری گالی دے کر کہا کہ بے غیرت 200 روپے کا رکشہ نہیں کرایا اور ذلیل ہوتا جا رہا ہے۔ اب مولویوں کے مطابق یہ موٹر سائیکل والا گنہگار نہیں اور اس کی دو سو روپے بچانے والی حرکت بھی جائز ہے، مگر اس فعل کو معاشرہ پسند نہیں کر رہا اور اسے گالی دے رہا ہے۔ چچی کے ساتھ شادی کے معاملے کو بھی اسی نظر سے دیکھ لیں۔
علما کی عادت ہے جہاں کوئی دلیل نہ بن پڑے تو فوراً مذہب کو عقل کے مقابلے میں لا کر تمام عقلی دلائل کی تردید کر دیں گے۔ حالانکہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ "أفلا تعقلون" فرما کر کہتا ہے کہ اپنی عقل سے کام لو۔ اگر عقل ناقص ہوتی تو اللہ کہتا کہ اپنی عقل کی نہ مانو، میری مانو۔ ابوجہل کا لقب عقل کی مخالفت کی وجہ سے پڑا تھا۔ اگر عقل مند ہوتا تو ابوجہل کہلاتا!
انسان کو اللہ تعالی نے نفیس بنایا ہے۔ اس کی نفاست کا تقاضا ہے کہ وہ حلت اور حرمت کے باب میں بہت حساس رہے۔ سب سے نفیس طبیعت اگر کس کی ہوتی ہے تو وہ پیغمبر کی ہوتی ہے۔ ایک پیغمبر اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ اسے ذرا گوارا نہیں ہوتا کہ اس کے کسی اقدام کی وجہ سے اس کی اخلاقیات کے متعلق کوئی سوال اٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے پوری زندگی ضب نہیں کھایا۔ ضب نجد کے صحراؤں میں پایا جانے والا ایک جانور ہے۔ اردو میں اسے سوسمار کہتے ہیں۔ یہ سانڈے کی شکل کی طرح کا ہوتا ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے۔ حضرت خالد بن ولید رض نے اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا کہ ضب حلال ہے یا حرام۔ آپ نے فرمایا یہ میرے علاقے میں نہیں ہوتا۔ اس لیے میں اس سے طبعی طور پر کراہت محسوس کرتا ہوں۔ ایک حدیث میں آپ کے سامنے دسترخوان پر صحرا کا یہ جانور کھایا گیا۔ آپ کو دعوت دی گئی مگر آپ نے نہیں کھایا۔ آپ کا اسے نہ کھانا آپ کی طبعِ لطیف یعنی نفیس طبیعت کا تقاضا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس جانور کے گوشت میں ہلکی سی سمیل آتی ہے۔ کچا پیاز اور کچا لہسن دونوں حلال ہیں۔ مگر آپ ﷺ نے ساری زندگی انھیں نہیں کھایا۔ سلاد کی ڈش تو پیاز کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ یہ دونوں چیزیں اس لیے نہیں کھائیں کیونکہ ان کے کھانے سے منہ سے ہلکی سی بو آتی ہے"۔
پس چچی وغیرہ سے شادی مذہب اور عقل کی روشنی میں نامناسب ہے۔ رہی مولوی کی بات، تو سماج سے کٹے اور معاشرے سے ہٹے اس بندے کو نظرانداز کر دینا بہتر ہے۔

