Bure Ko Na Maro, Bure Ki Maa Ko Maro
برے کو نہ مارو، برے کی ماں کو مارو

یقیناََ اس حادثے سے ہر کسی کا دل دکھا۔ پر ایک بات یہاں نوٹ کرنے کی ہے کہ بولنے والوں اور لکھنے والوں کی تانیں اس بات پہ ٹوٹیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اس بربریت کی روک تھام کے لیے حکومت ٹھوس اقدامات کرے، مجرموں کو چوکوں میں پھانسیاں دی جائیں وغیرہ وغیرہ۔
کوئی دانشور یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ غیرت کے نام پہ قتل کو رواج کس نے دیا ہے، کن لوگوں نے شرم و حیا کا پیکر مردوں کو چھوڑ کر عورتوں کو ٹھہرایا، کس نے بتایا کہ عورتیں ناقص العقل ہیں، کس طبقے کی طرف سے غیرت کو عورتوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا، کون سا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ عورت ایک فتنہ ہے، بنی اسرائیل کی قوم کو عورتوں نے تباہ کیا، کون کہتا ہے کہ جہنم میں عورتیں کثرت سے ہوں گی، کس نے "قوّامون" کے معنی سربراہ کو مطلق اور شتر بے مہار حاکم کے معنی میں بدلا، کس نے ایک خاص تناظر میں بیان کی گئی حدیث کا یہ مفہوم لیا کہ عورت خاوند کی خواہش پہ فوراً لبیک کہے وگرنہ فرشتے ساری رات اس پہ لعنتیں بھیجتے ہیں!
جب آپ عورتوں کے خلاف اس قسم کی فضا پیدا کریں گے تو پھر اس کا نتیجہ عورتوں پہ روا رکھے جانے والے ظلم کی صورت میں ہی نکلے گا۔ کاری، ونی، سوارہ، قرآن سے شادی، وٹہ سٹہ کی شادی کی سی قبیح رسمیں انھی کے بیانات کے نتیجے میں ہی پیدا ہوئی ہیں۔ دانشور مرض کی تشخیص کر رہے ہیں نہ ہی اس کا علاج تجویز کر رہے ہیں۔ اس حادثے کے بطون میں جھانکیں تو سوائے اہل مذہب کے اور کوئی نہیں ملے گا۔ یہ مولوی ہیں جنہوں نے صدیوں کی محنت سے جہالت کی یہ مرغی پیدا کی ہے جو تواتر سے بربریت کے یہ انڈے بچے دیے جا رہی ہے۔ انھوں نے بڑی پلاننگ سے مرد و زن کی برابری کو غالب اور مغلوب اور حاکم اور محکوم کے درجے پہ لاکھڑا کیا۔
مردوں میں وحشت بھرنے کا دوسرا اقدام انہوں نے یہ کیا کہ غیر مشروط طور پر انہیں چار شادیوں کی اجازت دے دی۔ ایک منٹ کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ ہر کوئی چار شادیاں رچا سکتا ہے۔ اب ایک بندے کی تنخواہ 30 ہزار روپے ہے۔ اس تنخواہ کو آپ چار پہ تقسیم کریں اور پھر چاروں گھر چلا کے دکھائیں۔ یہ نہ صرف عورتوں پہ معاشی و جنسی حوالے سے ظلم ہوگا بلکہ آنے والی نسلوں کے بگاڑ کی بنیاد بھی بنے گا۔
تیسری واردات مولوی نے یہ کی کہ غیرت کو صرف عورت کے ساتھ مخصوص کر دیا۔ اس موضوع پہ انہوں نے کتابیں لکھیں۔ اچھا خاصا لٹریچر بازار میں دستیاب ہے اس حوالے سے۔ حالانکہ شرم و حیا کی جتنی ضرورت عورت کو ہے اتنی ہی مرد کو بھی ہے۔ انھوں نے کمال چابک دستی سے مردوں کی غیرت کا بوجھ بھی عورت پہ لاد کر مرد کو بے لگام کر دیا۔ غیرت کا اپنا بوجھ اُٹھانا مشکل ہے۔ اوپر سے عورتوں پہ مردانہ غیرت کا بوجھ بھی آن پڑا۔ اب عورت اس کڑے معیار پہ کیسے اترے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کڑے معیار پہ اتر کر بھی اس کے نصیب میں جوتے ہیں۔
مولویوں نے اسی پہ بس نہیں کیا۔ انھوں نے عورتوں پہ دنیاوی تعلیم کے دروازے بند کر دیے۔ گئے وقتوں میں ان کا فرمانا تھا کہ اگر لڑکیاں لکھنا سیکھ گئیں تو ہمسایوں کے لڑکوں کو خط لکھیں گی۔ وہ تو پچھلے بیس پچیس سالوں سے ٹیکنالوجی کے زور نے ان کے جبر میں تھوڑی نرمی کی ہے۔ وگرنہ یہ افغان طالبان کی سوچ رکھتے ہیں۔ خود میری ماں کو اس کے سگے ماموں نے یہ کہہ کر پڑھنے نہیں دیا: " دھیاں نوں نئیں پڑھائی دا" اس نہ پڑھنے کا دکھ بیچاری کو آج تک ہے۔ کئی بار اس نے حسرت کا اظہار کیا کہ کاش مجھے اردو آتی تو میں قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھتی۔
مزید واردات یہ کی کہ اگر معاشرے کو برباد ہونے سے بچانا ہے تو عورتوں کو زنجیریں پہنا دو۔ انہیں چہرے کا پردہ کرواؤ۔ یہ گھروں میں ٹکی رہیں۔ ہر نامحرم سے پردہ کریں۔ دیور، جیٹھ اور کزن سے بھی اپنا منہ چھپائیں۔ مردوں کا ہر حکم بجا لائیں خواہ وہ غلط ہے یا صحیح۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی۔ معاشی دروازے بھی انہوں نے عورت کے لیے بند کر دیے۔ آپ پورا شہر چھان ماریں۔ کوئی عورت دکان چلاتی یا ریڑھی لگاتی نہیں ملے گی۔ زندگی کے ہر معاشی شعبے پہ مردوں کا قبضہ ہے۔ عورتوں کو مالی حوالے سے مرد کا مکمل محتاج بنا دینا ان کے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ اب جس عورت نے ماچس کی ڈبیا کے لیے بھی خاوند کے آگے ہاتھ پھیلانے ہیں تو بدلے میں جوتے ہی کھانے ہیں۔
19 تاریخ کو حادثے کی خبر ملتی ہے، مگر حرام ہے ان مولویوں نے کوئی پریس کانفرنس کی ہو یا مجرموں کو سخت سزائیں دینے تک کوئی سڑک بند کی ہو۔ اتنا بڑا سانحہ ہوا مگر ان کی زبانوں میں کوئی جنبش پیدا ہوئی نہ ان کے قلم ہی میں کوئی حرکت پیدا ہوئی۔ میں دنیا اخبار کا مستقل قاری ہوں۔ اس اخبار نے کوئی پانچ مولوی گھسیڑ رکھے ہیں: مفتی منیب الرحمان، علامہ ابتسام الہی ظہیر، امیر حمزہ، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اور حافظ محمد ادریس۔ 19 جولائی کو اس واقعے کی وڈیو وائرل ہوئی۔ آج چار دن ہو گئے ہیں۔ ان میں سے کسی مولوی نے مظلومہ بانو کے حق میں اور بلوچ سرداروں کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا۔
توہین رسالت کے معاملے میں عیسائی عورت آسیہ کا مسئلہ اٹھا تو انھوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا۔ اسے ملعونہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ کوئی مولوی اس واقعے کا چشم دید گواہ نہیں تھا۔ یہ مسئلہ عدالت نے حل کرنا تھا۔ انھوں نے مگر اپنی ہی عدالت لگا لی۔ بلوچستان سانحے پہ لکھا اور بولا تو صرف لںرلز نے، مولویوں کے نزدیک گنہگاروں نے، ڈاڑھی مونڈوں نے، بے نمازیوں نے، شوبز شخصیات نے مولوی جنھیں حقارت سے دیکھتا اور انھیں جہنم کی وعیدیں سناتا ہے۔ اس ملک میں غیرت کے نام پہ آج تک لاکھوں عورتیں قتل ہو چکی ہیں۔ ہر شہر ہر علاقہ اس قتل کا حوالہ ہے۔ ان قاتلین کو مولویوں کی پوری پوری حمایت حاصل ہے۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی مولوی کے منہ سے نہیں سنا کہ غیرت کے نام پہ قتل ناجائز ہے۔ کسی خطیب نے اپنے خطبے میں اس وحشت کو موضوع نہیں بنایا۔ رات کے کسی جلسے میں اس کے ہونٹوں نے اس کے خلاف جنبش نہیں لی۔ اس وحشت کے خلاف کبھی انہوں نے ریلی نہیں نکالی، ان کے ہاں سے کوئی جلوس برآمد نہیں ہوا۔ کبھی آپ نے سنا کہ کسی وڈیرے، سردار یا پیر نے کسی لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہو اور مولویوں نے سڑک بلاک کی ہو یا فیض آباد میں دھرنا دیا ہو۔
بلوچستان کے حالیہ حادثے کو لے لیں۔ اس واقعے کی وڈیو اتنی دردناک ہے کہ بندہ ہل کے رہ جاتا ہے۔ وقت کے ابوجہلوں میں گھری ایک نہتی لڑکی پہ نہ صرف گولیاں چلائی جاتی ہیں بلکہ یہ اسے گالیاں بھی دیتے اور اس پہ تھوکتے بھی ہیں۔ مولوی صاحبان نے چپ ایسے سادھ رکھی ہے جیسے صحرا میں بانو نہیں کوئی چڑیا مری ہے۔

