Bara Kon, Army Chief Ya Army?
بڑا کون، آرمی چیف یا آرمی؟

آرمی چیف اور آرمی کی طاقت کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے، تو کس کا پلڑا بھاری ہے؟ آرمی چیف کا یا آرمی کا؟ یہ وہ گتھی ہے، جسے سلجھائے بغیر ہم آرمی چیف کے مزاج کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی آرمی کے ادارے کی سرشت جان سکتے ہیں۔ پاکستان میں عموماََ خیال کیا جاتا ہے کہ آرمی چیف سب سے طاقتور ہستی ہے۔ اس تصور کی بنیاد پے در پہ مارشل لاؤں پہ رکھی گئی ہے۔ مثلاً جنرل ایوب، جنرل یحیٰی، جنرل جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے اپنے ادوار میں فوجی حکومتیں قائم کیں۔ ان پانچوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے طاقت کی نسبت ان شخصیات کی طرف کر دی جاتی ہے۔
میرے خیال میں یہ نقطۂ نظر کمزور ہے۔ طاقت کا اصل مرکز آرمی چیف نہیں، آرمی کا ادارہ ہے۔ آرمی چیف کو جو طاقت ملتی ہے، یہ اپنے ادارے سے ملتی ہے اور یہ طاقت عارضی ہوتی ہے۔ ادارہ جب چاہے یہ طاقت چھین لیتا ہے اور یہ "جب" کوئی غیر مشروط نہیں۔ حالات ایسے پیدا ہو جائیں کہ آرمی کو لگے کہ اب ہمارا چیف ہم پہ بوجھ ہے، تو اسے بڑی سہولت سے دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر کرتا ہے۔ پاور آرمی کے پاس ہوتی ہے، چیف کے پاس نہیں۔ چیف کو ملی پاور عارضی ہوتی ہے۔ یاد ہے جب 1971ء کی شکست کی صورت میں جنرل یحیٰی ملک کے صدر بننے کے خواب دیکھ رہا تھا اور کسی قیمت پہ بھی آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پھر ادارہ آگے بڑھا اور اس سے یہ منصب چھین کر اسے رخصت کیا۔
جنرل ایوب کی رخصتی بھی اسی اصول کے تحت ہوئی۔ جنرل ایوب جب ادارے پہ بوجھ بنا تو ادارے کے تیور دیکھ کر ازخود ہی مستعفی ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان پہ پورے 10 سال حکومت کی۔ یہ ایک بہت لمبا عرصہ ہے۔ ٹھیک ٹھاک گھٹن پیدا ہو چکی تھی پورے ملک میں۔ احتجاجی تحریکیں زور پکڑ چکی تھیں۔ ایوب کتا کے نعرے لگنے شروع ہو گئے تھے۔ ممکن ہے اس کے دل میں بھی ہلکی سی غیرت جاگی ہو، مگر اصل کردار ادارے کا تھا۔ ادارے میں بیٹھے سولہ سترہ جرنیل تنگ آ گئے تھے اس کی طویل حکمرانی سے۔ یوں بھی ہر جنرل کی خواہش ہوتی ہے آرمی چیف بننے کی۔ سو اس کے بارے میں سبھی کا مزاج بگڑا۔ ایک تو طویل ڈکٹیٹر شپ سے پورے ملک میں ادارے کی بدنامی ہو رہی تھی، دوسرے، مشرقی و مغربی پاکستان میں جگہ جگہ احتجاج ہو رہا تھا۔ سو جنرل یحیی آگے بڑھا اور اس سے اقتدار چھینا یا اس نے بامرِ مجبوری اقتدار اسے دیا۔
رہے جنرل ضیا تو بھلے ہی اسے موت نے آ لیا، مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد ادارے نے متحرک ہو جانا تھا اور اسے وردی اتارنے پہ مجبور کر دینا تھا۔ آٹھ دس سال بہت ہوتے ہیں حکومت کرنے کو۔ اس سے زیادہ عرصہ ادارے کی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔
مشرف کو بھی ادارے ہی نے وردی اتارنے پہ مجبور کیا تھا۔ وگرنہ وہ تو منصب پہ تاحیات براجمان ہونے کا منصوبہ بنائے بیٹھا تھا۔ آرمی نے جب دیکھا کہ موصوف آٹھ سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، تو انھوں نے ایسا کھیل کھیلا کہ نہ صرف آرمی چیف کا منصب ہاتھ سے جاتا رہا، بلکہ اس کے اردگرد جبر کی ایسی فضا پیدا کی کہ صدارت بھی مٹھی میں بند ریت کی پھسلتی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ مشرف ادارے پہ ایک ناگوار بوجھ بن چکا تھا۔ جس مؤدب جنرل کیانی کو مشرف نے آئی ایس آئی کا چیف اس خیال کے پیشِ نظر لگایا کہ یہ میرا وفادار رہے گا، اس نے ایسی فیلڈنگ لگائی کہ مشرف صاحب چوکے چھکے تو کیا، سنگل لینا بھی بھول گئے۔ انتخابات کے نتائج بھی کیانی صاحب نے مشرف کے امیدوں کے برعکس دیے۔ اسی وجہ سے مشرف صاحب آخرِدم تک کیانی سے ناراض رہے۔ وجہ وہی کہ ادارہ مشرف کے خلاف ہو چکا تھا۔
جنرل کیانی کے پیچھے آرمی ہی تھی۔ یہ جو وکلا حضرات اور دیگر سیاسی جماعتیں مشرف کو اقتدار سے آؤٹ کرنے کو اپنا کارنامہ سمجھتی ہیں، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ یہ سارے مل کر تو ججز کالونی کے آگے لگی باڑھ نہیں توڑ سکے۔ مشرف کو نکالنے کا کریڈٹ اگر جاتا ہے، تو صرف آرمی کو۔ آرمی اگر اسے ہر حال میں چیف کے منصب پہ رکھنا چاہتی یا صدر کے عہدے کے لیے ہی موزوں سمجھتی، تو ان سیاست دانوں کی کیا اوقات تھی کہ یہ اسے استعفیٰ دینے پہ مجبور کرتے۔ اس وقت حالات یہ تھے کہ پورے ملک میں مشرف کے خلاف فضا اس قدر خلاف ہو چکی تھی کہ کوئی طبقہ اسے ایک لمحے کے لیے بھی گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ویسے بھی ادارہ اپنے چیف کو بطورِ ڈکٹیٹر آٹھ دس سال کے لیے ہی برداشت کرتا ہے۔ فوج کے لیے یہ نری بدنامی تھی۔ پس آرمی نہ تو اسے اپنا چیف دیکھنے کی روادار تھی اور نہ ہی ملک کا صدر۔ سو مشرف صاحب یہ بھانپ کر اپنے ادارے اور صدارت دونوں سے الگ ہونے پہ مجبور ہو گئے۔
جنرل باجوہ کا دور بھی عکاسی کرتا ہے اور میرے اس مدعا کو تقویت دیتا ہے کہ جو کرتا ہے، ادارہ کرتا ہے۔ آرمی چیف پابند ہوتا ہے اپنے ادارے کی پالیسیوں کا۔ جنرل باجوہ صاحب نواز شریف کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتا تھا کہ ایک طرح سے اسے آرمی چیف بنانے میں وہ اس کا محسن تھا۔ وہ کسی قیمت پہ بھی نواز شریف کو نکالنے کے حق میں نہیں تھا۔ مگر نواز شریف کسی صورت میں بھی آرمی کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔ اس سے جان چھڑانے کے لیے جنرل راحیل شریف سے بھی پہلے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ وجہ وہی میثاقِ جمہوریت تھا، جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بیچ میں ہوا تھا۔ اگرچہ نواز شریف کی طرف سے اس کی بارہا خلاف ورزی ہوئی، مگر آرمی کو اندیشہ تھا کہ اگر دونوں جماعتیں مل گئیں، تو ملک کی خارجہ پالیسیاں یہ طے کریں گی۔ یوں ہماری من مانی نہیں چلے گی۔ اس کے لیے ادارے نے خان صاحب کو لانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ پس ادارے نے جنرل باجوہ کی ایک نہیں چلنے دی اور نواز شریف کو بذریعہ ثاقب نثار اینڈ کمپنی گھر بھیج کر ہی دم لیا۔
یہ بھی اظہار کرتے چلیں کہ آرمی اپنے چیف کے خلاف کبھی بغاوت نہیں کرتی۔ یعنی یہ نہیں ہوتا کہ سب جرنیل اکٹھے ہو کر اپنے باس سے بزور استعفیٰ لے لیں۔ ادارہ اپنے چیف کو باعزت رخصت کرتا ہے۔ کب؟ جب ادارہ اس کی طویل آمریت سے تنگ آ جائے یا 71ء کی شکست کی طرح کوئی چیف ادارے پہ بوجھ بن جائے یا اس کے لیے بہت بکھیڑے کھڑے کر دے۔
سو اے دوستو! جو لوگ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ عاصم منیر کے بعد ستے خیراں ہیں، وہ تصورات کی دنیا میں جیتے ہیں۔ عاصم منیر اگر آج استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں، تو بھی آرمی کی موجودہ حکمتِ عملی میں بال برابر بھی فرق نہیں آئے گا۔ خان صاحب اور تحریک انصاف کے باب میں اس کی جاری یہی پالیسی رہے گی۔ پالیسی دراصل بطورِ ادارہ آرمی کی ہوتی ہے نہ کہ اکیلے آرمی چیف کی۔
یہ جو خان صاحب فیض حمید کو چیف بنانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پہ لگائے اور اپنے مخالفین کی نیندیں اڑائے ہوئے تھے، تو یہ نرا سراب تھا، دھوکا تھا۔ خان صاحب نے بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونا تھا اور اور اس کی مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے دلوں میں بلاوجہ ڈر پیدا کر رکھا تھا۔ فیض حمید نے چیف بنتے ہی اپنے ادارے کے زیرِ اثر آ کر خان صاحب کی چھٹی کروانی تھی اور باقی جماعتوں کو ہس کر قبول کر لینا تھا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ فیض حمید کو جب یقین ہو چلا کہ وہ کبھی آرمی چیف نہیں بن سکتا تو اس نے نواز شریف کو فون کیا اور برابر کھڑی اپنی بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائی کہ میں تیرے ساتھ ہوئی ہر زیادتی کا ازالہ کروں گا۔ بس ایک بار مجھے آرمی چیف بنا دو۔
یہ جو ہر سال پاورفل شخصیات کی فہرست چھپتی ہے اور اس میں پاکستان کے آرمی چیف کا نمبر ہوتا ہے، تو یہ فہرست شخصیات کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے ادارہ ہی ہوتا ہے جو اسے طاقت دیتا ہے۔

