Baghban Bhi Khush Rahe Razi Rahe Sayyad Bhi (2)
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی (2)

مفتی صاحب پھر خدا کی قدرتیں گنوانا شروع ہو گئے۔ لکھا کہ ہم اپنی طاقت سے فضا میں چند قطرے بھی نہیں رکھ سکتے۔ بادلوں میں لاکھوں ٹن پانی جمع رکھنے کا کام اللہ ہی کرتا ہے۔
مفتی صاحب سے کوئی پوچھے کہ فضا میں پانی رکھنے کا دعویٰ کس نے کیا ہے۔ نیز کون منکر ہے اللہ کے کاموں کا! نیز اس کے کام کسی قاعدے کلیے کے تحت انجام پاتے ہیں یا بے ڈھنگے انداز سے وہ کام کرتا ہے۔ عرب ممالک کی فضائیں بارشوں کے لیے مناسبت نہیں رکھتیں۔ پھر خدا وہاں آئے روز یا ہر مہینے بارش کیوں نہیں برساتا! وہاں اس کا گھر مکہ بھی ہے اور اس کے نبی کا روضۂ پاک بھی ہے۔ وہاں تو بارشوں کا معمول ہونا چاہیے۔ کیونکہ گرمی بہت پڑتی ہے۔ اس کے باوجود یا تو بادل وہاں کا رستہ بھول جاتے ہیں یا خدا کا موڈ ہی نہیں ہوتا۔ مفتی صاحب ذرا اس پہ روشنی ڈالیں تو کرم ہوگا۔
یہاں ایک انہونی کا جواب دیں گے مفتی صاحب؟ سائنس اس درجے ترقی کر چکی ہے کہ بادلوں میں اتنی نمی نہ ہو کہ وہ برس سکیں۔ مگر سائنس اس قابل ہے کہ انھیں برسا سکے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بادلوں میں جہاز کے ذریعے نمک کا چھڑکاؤ ہوتا ہے اور مینہ وقت سے پہلے برسنا شروع ہو جاتا ہے۔ اب تو مصنوعی بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ یہاں اہلِ سائنس خدا کے کام میں مداخلت کرکے اسے اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں تو سیلاب وغیرہ کے معاملے میں مداخلت کرکے اسے اپنے ماتحت نہیں کر سکتے!
عوام پر مولویوں کا اتنا اثر ہے کہ وقت سے پہلے بادلوں کو برسانے کی بات کسی بندے کے سامنے کرکے دیکھیں، وہ بتاتے والے کے گلے پڑ جائے گا، اسے پاگل قرار دے گا۔
یہ دنیا اسباب کے تحت چل رہی ہے۔ اس میں نیک ہستیوں کو بھی استثنا نہیں۔ جنگ احد میں 70 صحابہ کی شہادت ہوئی۔ اللہ چاہتا تو حضرت خالد بن ولید، جو اس وقت حالتِ کفر میں تھے اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں میں پکڑی تلواروں کو عام چھڑیوں میں بدل دیتا اور کوئی ایک صحابی بھی شہید نہ ہوتا۔ پر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے دنیا کے مقدس ترین لوگوں کو اسباب کے سپرد کیے رکھا۔ دوچار صحابہ کے سوا سبھی نے وہ جگہ چھوڑ دی۔ حضرت خالد بن ولید نے موقع غنیمت جانا اور پیچھے سے حملہ کر دیا۔
ان مولوی حضرات کو جہاں کچھ نہ سوجھے، جہاں ان سے کوئی جواب نہ بن پڑے، تو دو آیتیں پیش کر دیتے ہیں۔ ایک، "ان اللہ علی کل شئی قدیر" اور دوسری، "فعال لما یرید"۔
اہلِ مذہب کو خبر ہو کہ خدا کی مشیت (ارادہ) بہت باوقار، بہت سلجھی ہوئی اور بہت دانشمندانہ ہے۔ "اگر اللہ چاہے" کا فقرہ سائنسی صداقتوں سے نظریں چرانے کے لیے مولویوں کا گمراہ کن نسخہ ہے۔
کیہ ایویں بڈھے وارے عشق کُد پئے نیں مفتی صاحب نوں۔ ساری زندگی سائنس کی مخالفت میں آفات کو خدا کا عذاب قرار دیتے گزار دی ہے، تو جو دس پندرہ سال رہ گئے ہیں، انھیں بھی اسی طرح گزار دے۔ سوچا ہوگا مفتی جی نے دنیا سے جاتے جاتے خون لگا کر شہیدوں میں ہی نام لکھوا لوں۔
دراصل آج تک پوری ملائیت آسمانی اور زمینی آفات و بلیات کو عذاب کہتی رہی۔ موجودہ دور میں یورپ کے سائنسی اثرات ہمارے جیسے ملکوں پہ بھی تھوڑے بہت پڑے۔ نیز ان روایتی علما کے خلاف جاوید احمد غامدی صاحب اور ایک دو اور علما نے اسٹینڈ لیا۔ کچھ سوشل میڈیا کا اثر تھا۔ اوپر سے کئی کالم نگار سائنٹفک سوچ رکھتے ہیں۔ خورشید احمد ندیم صاحب دنیا اخبار میں مفتی صاحب کے ساتھ کالم نگار ہیں۔ جب کبھی سیلاب آیا خورشید ندیم صاحب نے یہی لکھا کہ یہ انسانی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ چناچہ ان وجوہ کے پیشِ نظر بامرِ مجبوری مولوی حضرات نے اپنے موقف میں تھوڑی لچک پیدا کی ہے۔ بالائی سطح کے شعور کی تھوڑی بیداری کی وجہ سے انھیں یہ کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔ اس میں بھی انہوں نے نفاق کا پورا پورا لحاظ کیا۔ شروع میں منافقانہ سی تائید کرکے پھر وہی پرانا موقف دہرا دیا۔ کبھی"کسی حد تک" لکھ کر تو کبھی "یہ سیلاب تنبیہات بھی ہیں، انذار بھی، ابتلا بھی اور قیامت برپا ہونے کی ایک ادنیٰ جھلک بھی" لکھ کر۔
ذرا دل تھام کر پڑھیں علما حضرات۔
2018ء میں ایران کے شہری دفاع کے سربراہ غلام رضا جلالی نے اسرائیل اور ایک اور دوسرے ملک پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ایران کے بادلوں کو چرایا۔ جس کے نتیجے میں ایران میں ماحولیاتی تبدیلی اور خُشک سالی نے جنم لیا۔ ایرانی نیوز ایجسنی نے بتایا کہ ایران میں دیکھی جانے والی ماحولیاتی تبدیلیاں غیر قدرتی اور بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔ ایرانی سائنسی مراکز اپنے تحقیقی مطالعوں کے ذریعے اس نتیجے تک پہنچے ہیں۔ جلالی نے مزید کہا کہ اسرائیل اور ایک دوسرے ملک (متحدہ عرب امارات) کی مشترکہ ٹیم ایران میں داخل ہونے والے بادلوں کو غیر برساتی بنانے پر کام کر رہی ہے۔
2016ء میں بھی ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ایسے ہی تبصرے کیے تھے، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ "دشمن" کسی ناپاک ایجنڈے کے تحت بارش کے بادلوں میں سے ایران کے حصے کو تباہ کر رہے ہیں۔
انجینئر ظفر اقبال وٹو لکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر نے ترکی اور ایران کے درمیان ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے کہ ترکی ایران کے بادل چوری کر رہا ہے۔ ایرانی عوام اب سوال کر رہے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ ترکی کی طرف تو آسمان پر بادل بھی ہیں اور پہاڑوں پر برف بھی، لیکن جیسے ہی یہی پہاڑی سلسلہ ایران میں داخل ہوتا ہے تو پہاڑ یک دم خشک اور آسمان بادلوں سے صاف ہو جاتے ہیں۔
اب کیا فرماتے گے علمائے دین مفتیانِ شرعِ متین بیچ اس مسئلہ کے کہ معاملہ تو بادلوں کی چوری تک جا پہنچا ہے۔ سائنس کی دنیا کے اہلِ نظر کا ہاتھ تو خدائی کاموں میں مداخلت کر رہے ہیں۔
پاکستان کا ہر دانشور سیلاب کی تباہ کاریوں کی دنیاوی وجوہ بیان کر رہا ہے اور مولوی حضرات دینی اسباب کی گردان کر رہے ہیں۔ یہ فرق سماج سے انقطاع کا ہے۔ علما ہمیشہ سے معاشرے سے منقطع رہے ہیں۔
بات طے ہے کہ اہلِ مذہب کو سائنس کسی صورت میں وارا نہیں کھاتی۔ یہ اپنے دنیوی مفادات کی پرورش خدا کی قدرتوں کا جھانسا دے کر کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ وجہ؟ قدرت نے ان کا رزق چمگادڑوں اور الوؤں کی طرح تاریکی میں لکھ دیا ہے۔

