Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Baghban Bhi Khush Rahe Razi Rahe Sayyad Bhi (1)

Baghban Bhi Khush Rahe Razi Rahe Sayyad Bhi (1)

باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی (1)

مفتی صاحب اس ملک کے ایک نامور عالم دین ہیں۔ عرصہ دراز تک رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ اپنی مذہبی جماعت کے ایک نمائندہ عالم ہیں۔ ہیں روایت کے آدمی۔ درایت کو کبھی انھوں نے در خورِ اعتنا نہیں جانا یعنی جیسے ملک کے دیگر مولوی حضرات پٹے ہوئے رستوں پہ چلنے کے عادی ہیں، ایسے ہی مولانا بھی ہیں۔ ان کے کالمز اور ٹی وی چینلز پہ ان کے جدید خیالات کے حامل لوگوں کے ساتھ مباحثے اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ ایک روایتی عالم دین ہیں۔

یہاں تک تو بات ٹھیک ہے مگر 28 اگست 25ء کے کالم میں انھوں نے اس روایت سے معمولی سا انحراف کر ڈالا۔ دنیا بھر کے اہلِ دانش، اہلِ سائنس اور سیاست دانوں کے نزدیک کائنات قدرت کے قوانین، یعنی ایک سسٹم کے تحت چل رہی ہے۔ اس سسٹم میں انسان کی غیر ضروری مداخلت اس میں خرابیاں پیدا کرتی ہے، جس سے سسٹم بگڑتا اور سیلاب کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ مفتی صاحب نے پہلے تو ان سائنسی صداقتوں کی ریاکارانہ سی تصدیق کی۔ لکھا کہ قدرتی نظام میں دخل اندازیاں انفرادی و اجتماعی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں۔

اس کے فوراً بعد وہی روایت پکڑ لی، جو صدیوں سے ان کے ہاں چلی آ رہی ہے۔ یعنی یہ سیلاب وغیرہ اللہ کے کام ہیں۔ یہاں مفتی صاحب نے بڑی باریک چال چلی۔ ایسی کہ کوئی عام بندہ پکڑ نہیں سکتا۔ "باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی" والی کہاوت یاد آ گئی۔

اچھا! شروع میں روایت سے بغاوت بھی جزوی سی، منافقانہ سی ہے۔ وہ اس طرح کہ "مادی اسباب کسی حد تک درست بھی ہیں" لکھا۔ اب لگے ہاتھوں اس چیز کی بھی وضاحت کر دیتے کہ مادی اسباب کی حدود کیا ہیں اور خدا کی مشیت کی حدود کیا ہیں۔ خیر، آگے کا پورا کالم "کسی حد تک" کی بھی نفی کرتا نظر آتا ہے۔ یعنی جدت کی تھوڑی جھلک دکھا کر فوراً مولویت کی بکل اچھی طرح سے اوڑھ لی۔ آخر تک ساری تحریر پڑھ لیں۔ سیلاب، آندھیاں وغیرہ کو مفتی صاحب نے قوانین کے تحت نہیں، خدا کے ارادے کے تحت کر ڈالا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا اوپر سے ڈائریکٹ حکم دیتا ہے کہ یہ سیلاب، زلزلے یا طوفان کہاں برپا ہوں۔ یہ ایک تقدیری کام ہے۔ ہم انسان عاجز ہیں۔ ہم ان کاموں میں دخیل نہیں۔ کیسا پینترا بدلا! ویسے جدت کو ٹچ دینے کی ضرورت کیا تھی! سیدھی طرح عام مولویوں کی ان آفتوں کو خدا کے ذمے لگاتے، اللہ اللہ خیر صلا۔

پطرس بخاری کے لطیفے میں مولانا ظفر علی خان کا کردار ہی نبھایا مفتی جی نے۔ انھوں نے پطرس سے پوچھا: یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے؟

پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے: مولانا: آپ کی عمر کیا ہوگی؟

اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے: بھئی! یہی کوئی پچھتر سال ہوگی۔ پطرس کہنے لگے: مولانا! جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گزار دیے، تو دو چار سال اور گذار لیجیے۔

اسی طرح جب مفتی صاحب نے ستر پچھتر سال ان آفتوں کو عذاب قرار دینے میں گزار دیے ہیں، تو باقی کے دس پندرہ سال بھی گزار دیں۔ لعنت بھیجیں مادی اسباب پر، سائنس و ٹیکنالوجی پر۔ سیدھی طرح کہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ ساتھ آیت "ظَهَرَ الُفَسَادُ فِی الُبَرِّ وَ الُبَحُرِ بِمَا كَسَبَتُ اَیُدِی النَّاسِ"۔

ترجمہ: خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیاان برائیوں کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں" لکھ ڈالتے۔ شہیدوں میں ضرور شامل ہونا تھا۔ آپ غازی ہیں۔ غازی رہتے۔ اب آئیں ان کے مزید مندرجات کی طرف۔

لکھتے ہیں: "یہ زلزلے، آندھیاں، طوفانی بارشیں اور سیلاب قدرت کی طرف سے تنبیہات بھی ہیں، اِنذار بھی ہیں، ابتلا بھی ہیں اور قیامت برپا ہونے کی ایک ادنیٰ جھلک بھی ہیں"۔

یہاں ہومیوپیتھک قسم کا انداز اپنایا۔ تاکہ ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکال لے۔ یاد آیا، سکول کے زمانے میں بعض اساتذہ نے انگریزی کا ایک مضمون تیار کیا تھا، جو بیسٹ ٹیچر، بیسٹ فرینڈ، باپ، نیک ہمسایہ، ڈاکیا وغیرہ ہر کسی پہ تھوپا جا سکتا تھا۔ پس یہاں تنبیہات، انذار، آزمائش اور قیامت کی جھلک میں سے ہر کوئی اپنی مرضی کا مطلب نکال سکتا ہے۔ مفتی صاحب نے ایسی گول مول سی بات کی کہ سارے راضی ہو جائیں، دین دار بھی اور دنیا دار بھی۔

یہاں ایک اور پوائنٹ قابلِ ذکر ہے۔ وہ یہ کہ اس سیلاب کی نسبت اللہ کی طرف تب کریں، جب اس نے باقاعدہ فرشتوں کو حکم دیا ہو کہ جاؤ اور پاکستانیوں کو سیلاب میں ڈبو دو۔ اس سیلاب کو برپا کرنے میں قومی اور بین القومی دونوں قسم کے عوامل کار فرما ہیں۔ یہ گلوبل وارمنگ کا نتیجہ بھی ہے اور ہمارے سسٹم کی نااہلی بھی۔ دریاؤں کی گزرگاہوں پہ جب کالونیاں اور مکانات بننے ہیں تو بہنا ہی ہے سب نے۔ نیز امریکہ اور چین میں فضا میں زہریلا دھواں چھوڑنے والی فیکٹریاں کثیر تعداد میں ہیں۔

دنیا بھر کا 45 فیصد کیمیکل فضا میں چھوڑ رہی ہیں۔ اس حوالے سے کئی بار کانفرنسز ہوئیں، مگر بے سود۔ ماہرین عرصہ دراز سے خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فضاؤں میں زہر اسی طرح بھرا جاتا رہا تو یہ سیارہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ یہ ہے معقول وجہ سیلاب کی۔ لڑکا ون ویلنگ کرتا مر جائے تو اسے بھی اللہ کے کھاتے میں ڈالیں گے مولوی حضرات؟ سیلاب کے لیے حالات پیدا کرنا گویا کسی ناہنجار کا ون ویلنگ کرنا ہے۔ نہ ون ویلنگ اور نہ مرو۔ اسی طرح سیلاب کے لیے گلوبل وارمنگ سے بچو اور دریاؤں اور ندی نالوں کے رستوں میں رکاوٹ نہ ڈالو اور پانی میں نہ مرو۔

پھر لکھتے ہیں: "موسمی ماہرین نے چند سال پہلے بتایا تھا کہ بحیرہ عرب سے موجیں اٹھ رہی ہیں۔ آندھیاں انھیں دھکیل کر کراچی کے ساحل کی طرف لا رہی ہیں۔ ان کی رفتار یہ ہے۔ ان آندھیوں کی باگ ڈور ماہرین کے ہاتھ میں نہیں، اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ چاہے تو ان کا رخ موڑ دے اور چاہے تو جامد کر دے اور دکھتا عذاب بھی ٹل جائے"۔

مفتی صاحب! کس ماہر نے دعویٰ کیا ہے کہ آندھیوں کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے علم کی روشنی میں اور جدید سائنسی آلات سے کام لے کر خبر دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کی تحریر اگر کوئی اس طرح لکھے، تو کیسا رہے گا: اگر اللہ چاہے تو مفتی منیب الرحمان صاحب کو پاکستان میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں وزیراعظم بنا سکتا ہے۔ اس کے آگے کوئی مشکل نہیں۔ وہ "علٰی کلِِ شیئی قدیر" ہے۔ یا اللہ چاہے تو مفتی صاحب کو امریکہ کا صدر بھی بنا سکتا ہے۔ وہ خدا "فعال لما یرید" ہے۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

کیسا احمقانہ خیال ہے! خدا بے تکے کام نہیں کرتا۔ جو چاہے کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ پاکستان میں زور کا سلاب آئے اور اللہ ایک دم اس کا رخ انڈیا کی طرف موڑ دے یا اسے ختم کر دے۔ آج تک پاکستان میں کبھی ایسی انہونی نہیں ہوئی۔ جب کبھی سیلاب آیا اس نے تباہی مچائی۔ خدا ایک سنجیدہ ذات ہے وہ غیر سنجیدہ یا بے ہنگم کام کیوں کرے گا!

جاری ہے۔۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari