Apne Zahir Ke Sath Apne Batin Ko Paak Rakhen
اپنے ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کو بھی پاک رکھیں

ضروری نہیں کہ اللہ کے ہاں ہی بندہ سرخرو ہو۔ اسے قوم کے سامنے بھی سرخرو رہنا چاہیے۔ دل کی صفائی کے ساتھ ساتھ دامن کی بھی صفائی رکھنی چاہیے۔ خدا بےشک باطن دیکھتا ہے مگر لوگ ظاہر دیکھتے ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا دامن پاک ہے، میری نیت صاف ہے، مجھے کوئی پروا نہیں کہ لوگ میرے بارے میں کیا باتیں کرتے ہیں۔
نہیں جناب! جب آپ کا کردار مشکوک ہوگا تو لوگوں کی انگلیاں اٹھیں گی، انھیں باتیں بنانے کا موقع ملے گا۔ اس کے ذمے دار آپ ہوں گے۔ آپ انھیں یہ موقع نہ دیں۔ اپنے باطن کے ساتھ ساتھ اپنے ظاہر کو بھی صاف رکھیں اور اوروں کا ہدف نہ بنیں۔ اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں ہمیں ہر وقت حساس رہنا چاہیے۔ اس باب میں دنیا میں اگر کوئی سب سے زیادہ حساس ہوتا ہے تو وہ ایک پیغمبر ہوتا ہے۔
صفیہ بنت حیییؓ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ اعتکاف میں تھے، تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے (مسجد میں) آئی۔ میں آپ ﷺ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی، تو آپ ﷺ بھی مجھے چھوڑ کر آنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اسی وقت دو انصاری صحابہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، تو تیز چلنے لگے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ذرا ٹھہرو۔ یہ صفیہ بنت حییی ہیں! ان دونوں صحابہ نے عرض کیا: سبحان اللہ، یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمھارے دلوں میں بھی کوئی بری بات نہ ڈال دے۔
اسی سے جڑا ایک واقعہ تاریخ کے سینے میں بھی محفوظ ہے۔ امام بخاریؒ اپنے وقت کے ایک عظیم محدث ہو گزرے ہیں۔ آپ ایک دفعہ دریا کنارے بیٹھے اپنی تھیلی کے سکے گن رہے تھے۔ اسی دوران ایک نوسر باز ان کے پیچھے آن کھڑا ہوا۔ امام صاحب بے خبر تھے۔ اس نے بھی سکے گن لیے۔ آپ کشتی کے انتظار میں تھے۔ جب کشتی آئی اور سب مسافر بیٹھ گئے تو آپ بھی بیٹھ گئے۔ وہ نوسر باز بھی بیٹھ گیا۔ کشتی جب تھوڑا آگے گئی تو اس نوسر باز نے شور مچا دیا کہ میری تھیلی گم ہوگئی ہے۔ اس رنگ کی تھی اور اس میں اتنے سکے تھے۔ ملاح نے کہا جناب! آپ مسافروں کی تلاشی لے لیں۔ امام صاحب اس کی بھانپ گئے۔ سکون سے بیٹھے رہے۔
نوسر باز نے دل میں ٹھانی کہ آج تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ بیٹھے بٹھائے مفت میں اتنے پیسے مل جائیں گے۔ جب وہ سب کی تلاشی لے چکا توامام بخاری کے پاس آیا اور آپ کی تلاشی لی تو کچھ بھی برآمد نہ کر سکا۔ ہکا بکا رہ گیا۔ پریشان ہو کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ سوچنے لگے لگا کہ یہ تھیلی اس بندے نے چھپائی کہاں۔ جب کشتی کنارے لگی اور امام صاحب اترے تو اس نے آپ سے کہا اے بندۂ خدا! وہ تھیلی کہاں ہے؟ آپ نے کہا وہ تو میں نے دریا میں پھینک دی تھی۔ اسے جھٹکا لگا۔ کہنے لگا: کیوں؟ فرمایا اگر وہ تھیلی مجھ سے برآمد ہو جاتی تو دنیا کہتی کہ امام بخاری حدیثیں بھی لکھتا تھا اور ساتھ چوریاں بھی کرتا تھا۔ پیسے کا کیا ہے! میں محنت سے پھر کما لوں گا، مگر عزت گئی تو ہاتھ نہ آتی۔ وہ نوسر باز آپ کے پاؤں پڑ گیا۔ لگا معافیاں مانگنے۔
اگر امام صاحب کے پاس سے سکوں کی تھیلی نکل آتی تو آپ کے کردار پہ داغ لگ جانا تھا۔ بےشک آپ اللہ کے ہاں ایمان دار تھے، مگر دنیا نے آپ پہ پیسے چرانے کا الزام ہی لگانا تھا۔ دلوں کے حال اللہ جانتا ہے، لوگ نہیں۔ امام صاحب کمال حکمتِ عملی سے اپنا دامن صاف بچا گئے۔ پیسے گنوا لیے مگر عزت بچا لی۔ پس ہر کسی کو اپنے باطن اور ظاہر دونوں کے بارے میں حساس ہونا چاہیے۔ قرآن کی آیت "أفلاتعقلون" کا یہی تقاضا ہے۔

