Alipur Chatta Ki Fareeda
علی پور چٹھہ کی فریدہ

ہمارے اس معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی زندگی بھی ایک حادثہ ہوتی ہے اور موت بھی ایک حادثہ۔ ان کی پیدائش سے وفات تک ان کی حرماں نصیبی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ وہ زندگی کے ایک ایسے سرکش گھوڑے پہ سوار ہوتے ہیں جس پہ ان کا اختیار برائے نام ہوتا ہے۔ اب گھوڑا کن راہوں پہ چل پڑا ہے، کن منزلوں کی طرف انھیں لیے چلا جا رہا ہے، انھیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔
میں بنیادی طور پر تدبیر پرست ہوں۔ تقدیر پرستی اور سائنٹفک سوچ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ تقدیر پرستی کے یہی فقرے ہوتے ہیں: اس کی لکھی ایسے تھی، اس کے نصیب میں یہی کچھ تھا، مقدراں نال بندہ نہیں جھگڑ سکدا۔ جا ٹریا جا تے کرماں دا کھٹیا کھا۔ مجھے ان فقروں سے سخت چڑ ہے۔ خدا نے انسان کو آزادی بخشی ہے وہ اپنی زندگی میں آزاد ہے۔ لیکن کچھ زندگیاں بے بس سی ہوتی ہیں۔ انہیں ہر حال میں اپنے ماحول کے زیرِ اثر رہنا ہے۔ ماحول کوڑے برساتا رہتا ہے اور وہ چپ چاپ کوڑے کھاتے رہتے ہیں۔ اس تقدیر کے آگے ان کی تدبیر بے بس ہو جاتی ہے۔ یعنی تقدیر غالب اور تدبیر مغلوب۔
اب ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ فریدہ نام کی لڑکی کی پیدائش حادثاتی یوں ہے کہ اس کی ماں نے پیدا ہوتے ہی اسے رات کی کسی تاریکی میں نہر کنارے ڈالا اور چلتی بنی۔ ممکن ہے اپنا عیب چھپانے کے لیے۔ صبح جب جمگھٹ لگا لوگوں کا تو ان میں علی پور چٹھہ کا ایک ڈاکیا کھڑا تھا۔ اس نے لوگوں سے کہا کہ اس بچی کو میں اپنا لیتا ہوں۔ یوں وہ ایک دن کی بچی کو لے کر اپنے گھر آگیا۔ اب بچی اس کے گھر میں پلنے لگی۔ تھوڑے عرصے کے بعد وہ فوت ہو جاتا ہے۔ بچی جب کچھ بڑی ہوئی تو اس نے گھر میں اپنے لیے اجنبیت محسوس کی۔
گھر والوں کی طرف سے ملنے والی فطری محبت جو ہر بچے کا حق ہے، وہ اس سے محروم تھی۔ اس فیملی نے اسے دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔ اس کے کانوں میں یہ حقیقت بھی انڈیلی گئی کہ تو اس گھر کی حقیقی بیٹی نہیں۔ ایک دن مجھے اس نے خود بتایا کہ کئی بار انہوں نے مجھے کہا کہ تو حرامزادی ہے۔ تیری ماں نے تجھے ناجائز جنم دیا تھا۔ بات بات پہ اسے کچوکے لگاتے، طعنے دیتے۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتی، تنہائی میں روتی۔ خدا سے گلہ گزار ہوتی۔ پیدا ہونا تو اپنے اختیار میں نہیں۔
ایک بار اس کی سوتیلی ماں نے اسے گھر سے نکال دیا دھکے دے کر۔ عمر یہی کوئی 12-10 سال ہوگی۔ وہ باہر کوڑے کے ڈھیر پہ بیٹھی شام تک روتی رہی۔ شام کو وہ بے شرموں کی طرح خود ہی گھر آگئی۔ بلا وجہ ان سے معافی مانگی۔ وہ بچی پڑھتی پڑھتی ایم اے کر گئی۔ اس دوران اس کی ماں نے کیا کیا! وہ اسے کام کے لیے دوسرے شہروں کی فیکٹریوں میں بھیج دیتی۔ میں جس ادارے میں کام کرتا تھا اسی ادارے میں اس کی ماں اسے چھوڑنے آئی۔ اب اندازہ لگائیں! علی پور چٹھہ اس کا گھر ہے اور گوجرانوالہ شہر میں وہ ادارہ ہے۔ وہاں سے آنے میں کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے لگتے ہیں۔ وہ اپنی بپتا کبھی کبھی مجھے سناتی۔
اب اس کی ماں کو کوئی پرواہ نہیں کہ یہ بچی جوان ہے اور دور دراز کی فیکٹری میں اسے بھیجنا خطرے سے خالی نہیں۔ یہ خود بہک سکتی ہے یا کوئی اسے بہکا سکتا ہے۔ اب ہوا کیا! اس سارے عمل کے دوران اس لڑکی کے خیالات کے پرندے کو بھی پر لگ گئے۔ اب اڑان بھرنے کی چٹکیاں اس کے دل میں بھرنے لگیں۔ ایک دن میں نے اسے سمجھایا کہ جیسا تیرا ماحول ہے تو غلط قدم کبھی بھول کر بھی نہ اٹھانا۔ بے موت ماری جائے گی۔ مگر جس آزادی کا مزہ اس نے چکھ لیا تھا وہ چھٹ نہیں سکتی تھی۔
ایک دن وہ فیکٹری چھوڑ کر کہیں دوسری فیکٹری میں چلی گئی۔ وہاں کے مینجر سے اس کی قربت ہوئی۔ ایک دن یہ قربت حدیں کراس کر گئی۔ اس ظالم نے ظلم پہ ظلم یہ کیا کہ کوئی احتیاط بھی نہیں برتی۔ اب اس کے ماں بننے کا عمل شروع ہوگیا۔ اس نصیبوں جلی نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر اس حرکت کا رد عمل آیا تو میرے پاس اس کا حل کیا ہے۔ ابارشن ہی کروا لیتی۔ اب پیٹ بڑھ رہا ہے۔ اس کے برے دنوں کی شروعات ہے۔ جب پیٹ گھر بھر کی نظروں میں آگیا تو سب حیران رہ گئے۔ اس سے پوچھ تاچھ کی تو اسے بتانا پڑا کہ یہ اس عمل کا نتیجہ ہے جو فلاں نے میرے ساتھ کیا۔ اب اس کے بعد اس کے ساتھ وہی ہوا جو ہمارے سماج کی ریت اور معاشرے کی پختہ رسم ہے۔ اس کے بھائیوں نے آپس میں صلاح کی کہ اسے فارغ کرتے ہیں ہمیشہ کے لیے۔ محلے میں بدنامی کا باعث بنے گی۔ انہوں نے ایک رکشے والے سے بات کی جو عیسائی تھا۔ منصوبہ یہ بنا کہ اسے کسی فیکٹری میں کام کے بہانے کہیں لے جا اور مار ڈال۔ اس نے اس لڑکی کو رکشے میں بٹھایا اور کسی ویران مکان میں لے جا کر بند کر دیا۔
اس نے دل میں سوچا کہ جب اسے قتل کرنا ہی ٹھہرا تو کیوں نہ کچھ عرصہ دل بہلایا جائے۔ وہ اور اس کے دو تین دوستوں نے مل کر پھر اسے پورے دو ماہ تک خوب استعمال کیا۔ منہ پہ اس کے ٹیپ وغیرہ لگا دی ہوگی تاکہ شور نہ مچا سکے۔ اس نے بہتیری منتیں کی ہوں گی، خدا رسول کے واسطے دیے ہوں گے مگر بدبختوں پہ اس کا کیا اثر! آخرِ کار انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اب جس دن وہ غائب ہوئی اس کی ماں پریشان ہوگئی۔ بھائیوں نے یہ منصوبہ اپنی ماں کو بے خبر رکھ کر بنایا تھا۔ اگلے دن ماں تھانے پہنچ گئی۔ رپورٹ درج کرائی۔ پولیس کو اس کا نمبر دیا۔ کالیں ٹریس کی گئیں تو اس عیسائی لڑکے کا نام نکل آیا، مگر وہ غائب ہو چکا تھا۔ جس دن وہ قتل ہوئی اس سے اگلے دن اس کی لاش کو رات کے اندھیرے میں قبرستان میں لا کر دفنا دیا گیا۔ بستی میں شور مچتا ہے تو پولیس آ جاتی ہے۔ قبر سے لڑکی کی لاش نکال لی جاتی ہے پوسٹ مارٹم کے لیے۔
ایک دن دنیا اخبار پڑھتے ہوئے ایک خبر پہ نظر پڑی کہ گھر سے فرار دوشیزہ کی پراسرار ہلاکت۔ نیچے علی پر چٹھہ اور اس کے غیر حقیقی باپ ڈاکیے کا ذکر تھا۔ میں چونک پڑا۔
اس واقعے کو ہم مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ پہلا زاویہ لڑکی کے حوالے سے۔ آپ کہیں گے کہ جب اس نے ایم اے کر لیا تھا تو اسے عقلمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ کیوں وہ بے راہ روی کا شکار ہوئی۔ یہ تو سیدھا سادہ خود کشی کا کیس ہے۔ تعلیم یافتہ بندے کو تو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں یہ تجزیہ ناقص ہے۔ آپ اس لڑکی کی تعلیم کو اضافی یا مصنوعی عمل سمجھیں۔ اس کی تعلیم کا مقابلہ ہے اس کے گھر کے ماحول سے۔ یہ ماحول اتنا تگڑا ہے کہ اس نے اس کی تعلیم کے اثرات کو اڑا کر رکھ دیا۔ آپ خود کو اس بے بس کی جگہ پہ رکھ کر سوچیں۔ گھر کے افراد کے رویے اتنے کڑوے کسیلے اور وحشیانہ ہیں کہ اس کی ذہنی گروتھ انہوں نے ہونے ہی نہیں دی۔ وہ ذہنی طور پر نابالغ ہی رہی۔ وہ تو کٹی پتنگ کی طرح تھی ہوا جسے جس طرف چاہے اڑا لے جائے۔ بیگانہ گھر، بیگانی ماں، بیگانے بہن بھائی۔
یاد آیا ایک بار اس نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے بُھولے سے کوئی چیز کھا لی تو میری بڑی بہن نے کہا کہ پرائے کھائیں اور اپنے نہ کھائیں۔ در فٹے منہ ہمارا۔ اب آپ بتائیں! اس کی سولہ جماعتیں کچھ بگاڑ سکتی تھیں اس زہریلے ماحول کا! دراصل گھر والوں کی تقدیر نے اس لڑکی کی تدبیر کو شکست دے ڈالی۔ یہ تقدیر خدا کی طرف سے نہیں تھی، اس کے فیملی ممبرز کی طرف سے تھی۔ یہاں آپ لڑکی کو دوشی نہیں ٹھہرا سکتے۔ دوش دیں آپ سماج کو، اس کے بد نہاد لواحقین کو، جانور نما رشتے داروں کو۔
اب اس حادثے کا دوسرا زاویہ لیتے ہیں۔ اس کے بھائیوں نے کس بنیاد پہ اس کا قتل کرایا؟ غیرت کی بنیاد پہ۔ تو جناب وہ کیسے بھائی تھے جنہوں نے خود اپنی بہن کو پرائے شہروں میں بھیجا کہ جا اور کمائی کرکے لا۔ پھر اس کا دھیان بھی نہیں کیا۔ مکمل انصاف کرنا ہے تو پہلے بھائیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے، جو گھر بیٹھے اس کی کمائی کھاتے رہے۔ اپنی کسی سگی بہن کو انھوں نے باہر نہیں بھیجا۔ وہ گھر میں پلتی رہیں اور اس بدنصیب کو دھکے دے کر گھر سے باہر نکالتے رہے۔ ہمارا مذہب غیرت کے نام پہ بہن بیٹی کے قتل کی اجازت نہیں دیتا بھلے وہ ناجائز بچہ گود میں اٹھائے گھر آ جائے۔ اگر اسے سماج کی غلیظ روایت کے کولہو میں پیلنا ہی ہے تو پھر بیٹوں کو بھی اسی کولہو میں پیلیں۔ کبھی سنا کہ باپ نے غیرت کے نام پر بیٹے کو قتل کر دیا؟ غیرت صرف لڑکی کے ساتھ ہی کیوں خاص! کیا لڑکوں کو غیرت مند نہیں ہونا چاہیے! خدا تفریق کرتا ہے اس معاملے میں!

