Aleem Shakeel, Dunya Daron Ke Bhes Mein Aik Dindar Baba (2)
علیم شکیل، دنیا داروں کے بھیس میں ایک دین دار بابا (2)

دل کے بہت نرم تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے تو بے چین ہو جاتے۔ پھوپھو کہتی ہیں کہ اکثر ان کا کہنا تھا کہ مانگنے کوئی ہمسایہ آئے یا فقیر، تو ناں نہ کیا کر، چیز دے دیا کر۔ وہ کہتی کہ شے اگر صرف بچوں کے لیے ہو تو! کہتے پھر بھی دیا کر۔ بچوں کی خیر ہے۔
ایک دن محلے میں کسی گھر میں جھگڑا ہوا۔ جھگڑے کے نتیجے میں ایک چھوٹا بچہ بھوکا رہ گیا۔ خبر ملی تو اپنے گھر سے برتن میں دودھ ڈالا اور اس بچے کو پلا کر آئے۔
ساری زندگی انہوں نے فقیرانہ گزاری۔ ظاہر میں سوٹڈ بوٹڈ، صاف ستھرا لباس پہنتے تھے، بڑے لوگوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اندر سے مگر آپ کا بابا کبھی نہیں مرا۔ ظاہر کی چکا چوند کی آندھی ان کے اندر کے دیوں کی روشنی کبھی مدھم نہیں کر سکی۔ ان کا باطن ہمیشہ بُقعۂ نور رہا۔ آپ بڑی نکھری سی طبیعت لے کے آئے تھے خدا کے ہاں سے۔ لوبھ، حرص یا حسد کو دل میں کبھی جگہ نہیں دی۔ مکروہاتِ دنیا سے ہمیشہ پرے پرے رہے۔ دوستوں کی خوشی میں خوش اور ان کے دکھوں میں دکھی تھے۔ کسی کی نوکری لگ گئی یا کسی نے کسی تنظیم کا الیکشن جیت لیا، باباجی کے احساسات وہی ہوتے جو ان کے تھے۔ کسی کی کتاب چھپ جاتی تو دلجمعی سے اس کی پوسٹیں لگاتے۔ اخیر عمر میں ان کی نگاہ کمزور ہوگئی تھی۔ اس کے باوجود اوروں کی شاعری کمپوز کرتے۔
صحافت کی ذمہ داری آپ نے ہمیشہ عبادت سمجھ کر نبھائی۔ للیانی ایسے چھوٹے سے شہر میں اس فقیر نے سچی صحافت کا دیا جلایا۔ صحافت کے باب میں لوگوں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا۔ جب آپ کے شاگرد ڈھیر "سیانے" ہو گئے تو انھوں نے بابا جی کو صدر پریس کلب کے عہدے سے ہٹانے کی پوری کوشش کی۔ جب کچھ نہ بن سکا، تو ان کے مقابلے میں چار پانچ پریس کلب معرضِ وجود میں لے آئے۔ منفی ہتھکنڈوں سے صحافت کے کارڈ تو انھوں نے بنوا لیے، مگر آتا انھیں ککھ بھی نہیں تھا۔ کسی خبر کی ایک سطر نہیں لکھ سکتے تھے۔ فقیر مگر مہر بلب رہا، اپنی کُلی مل کے بیٹھا رہیا۔ مجال ہے ماتھے پہ ذرا شکن آئی ہو۔ وگرنہ ان حالات میں شریف سے شریف، ردعمل دیے بغیر نہیں رہتا۔
ان کی خوراک کیا تھی، ایک سیب، ایک امرود یا ایک آڑو سے پورا دن گزار دیتے۔ بنت العنب (انگور کی بیٹی) کا گھونٹ پیتے اور ساتھ انگور کا ایک دانہ لیتے۔ ان کے کل ماکولات و مشروبات یہی کچھ تھے۔ شہرت سے نفرین کا عالم دیکھیں! ڈھیر ساری شاعری کر رکھی تھی، پر اسے چھاپنے کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ لے دے کے ایک کتاب "جاگن ساڈے نین" چھپی۔ وہ بھی ان کے دوست خالد ارمان مرحوم کے صدقے"۔
یہ خیالات اس شخص کے ہیں جسے بابا جی کی سنگت میں پورے آٹھ سال گزارنے کا موقع ملا۔
پنجابی کے علاوہ گورمکھی بھی جانتے تھے۔ ان کا کلام انڈیا کے پنجاب میں بھی شائع ہوا تھا۔ ایک بار پنجاب سے پیشکش ہوئی تھی کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ ادھر ہمارے ہاں آ جائیں۔ رہائش بھی دیں گے اور آپ کا خرچ بھی اٹھائیں گے۔ جب چاہو پاکستان اپنے رشتےداروں سے ملنے چلا جانا۔ مگر درویشانہ مزاج کو یہ وارا ہی نہیں کھایا، پرکاہ کے برابر بھی اسے حیثیت نہیں دی.
پھر 2018ء میں ایک سردار نے امریکہ میں انوائٹ کیا۔ وطن کی محبت کی وجہ سے ادھر بھی نہیں گئے۔ سچ یہ ہے کہ آپ حرص و ہوس کی دنیا کے تھے ہی نہیں۔ قدرت سے بہت سلجھی ہوئی، نکھری اور صاف طبیعت لائے تھے۔ صحیح معنی میں ایک باصفا صوفی تھے۔
بابا جی نے دائم قلم کتاب سے ناتا رکھا۔ للیانی، جو ان کا "جم پل" ہے، مجرمانہ سرگرمیاں رکھنے والا پسماندہ سا شہر اور منشیات فروشوں کا گڑھ ہے۔ اس مکروہ ماحول میں بابا جی نے حق سچ کی شمع روشن کی۔ ان کی محبت کبھی کسی تفریق کی قائل نہیں رہی۔ سجن ہو یا دشمن دونوں سے دوستی نبھائی۔ ساری زندگی لوگوں کے حق کے لیے لڑا۔ ایک غیر علم دوست ماحول میں اور بے قدر لوگوں میں جیا اور خوب شان سے جیا۔ اہلِ علاقہ کے ضمیر زندہ ہوتے تو آپ کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے کہ اس قدر بے غرض اور کیسا بے لوث بندہ ان میں بس رہا ہے۔ یہ تو ان کے لیے باعثِ افتخار تھا۔ خیر، باباجی کو اس کی پروا بھی نہیں تھی۔ صلہ انھوں نے اپنے رب سے لینا تھا، جو یقیناً انھیں مل گیا ہوگا۔ خدا ان کی روح کو شانت رکھے۔ ان کے گناہوں سے درگزر فرما کر جنت میں ایک اونچا مقام نصیب کرے!
باباجی پنجابی زبان کے ایک منجھے ہوئے اور کمال کے شاعر تھے۔ ان کے اخلاقی وجود کے حسن کے جلوے آپ کو ان کی شاعری میں بھی جابجا ملیں گے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگا اور بخوبی ہوگا کہ ان کے دل میں فطرت نے انسانیت کا درد کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ نیز آپ کس قدر حساس تھے۔ آپ کی کتاب "جاگن ساڈے نین" سے چند اقتباسات دیکھیں:
ہٹی ہاسیاں دی پائی
دُکھ سانوں رکھنے پئے
"مُلّاں"
انساناں دی
نسل دے دشمن
سادھاں نوں چَھلی جاندے نیں
اپنا لُچ تلی جاندے نیں
"میں اینا کُو بُھکھا ہاں
جی کردا اے
سب دی بُھکھ نوں کھا جاواں"
"منافقت"
وچ حیاتی قرضے سئے سن
بھین بھرا تے سجن بیلی
رشتے دار وی کوئی نہ بنیا
مر گیا ایسے دُکھ نمانا
میت کول کھلو کے ہُن پئے
اُچی اُچی ہوکا دیون
ایہدا دینا لینا بھائیو
سانوں آن کے کہنا بھائیو
"بم دھماکہ"
اخبار دے دفتر بیٹھے
بے حِس بندے
ہَس کے کہندے
اج دی لِیڈ آ گئی
بم دھماکہ ہوگیا اے
"مجبوری"
دو ڈنگاں دی
روٹی بدلے
خاب، سوچاں
ضمیر گروی نیں
"لیڈر"
گھر وچ پیو دی
لاش پئی سی
اودھر ہے سی
آخری جلسہ
اَبّے کہڑا مُڑ آؤنا اے
ایہ گل سوچ کے
جلسے گاہ نوں
ٹر گیا لیڈر
"سپاں جہے انسان"
جوگی اَت حیران نیں ربا
سپاں جہے انسان نیں ربا
کالک دِیوے نال ویاہی
ایس طرحاں دے ہان نیں ربا
"مجبوری"
اُنج تاں مینوں ساؤن مہینہ
چنگا لگدا
پر کیہ کرئیے؟
کچا کوٹھا اکھاں وانگن
گَلّے باتے
چو پیندا اے
اُرلے پاسے حالے پار دا قبضہ اے
تاں سرکاراں تے سرکار دا قبضہ اے
ہر ویہڑے وچ ہائے ہائے ہندی اے
ہر ویہڑے وچ ہاہاکار دا قبضہ اے
وڈےوڈے سر وی ہاں وچ ہِلے نیں
دھوناں اُتے کس تلوار دا قبضہ اے
سانوں لٹن والا کیہڑا جمیا اے
ساڈے گھر تے چوکیدار دا قبضہ اے

