Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Aleem Shakeel, Dunya Daron Ke Bhes Mein Aik Dindar Baba (1)

Aleem Shakeel, Dunya Daron Ke Bhes Mein Aik Dindar Baba (1)

علیم شکیل، دنیا داروں کے بھیس میں ایک دین دار بابا (1)

بابا علیم شکیل مرحوم کی زندگی میں انھیں ملنے والا لقب "بابا" اور ان کی موت کے بعد ان کے متعلق لوگوں کے پاکیزہ تاثرات نے سماج کی اس روایت پہ کاری ضرب لگائی ہے، جس کے نزدیک نیکی کا معیار معاملات نہیں، محض عبادات ہیں۔ قوم کے نزدیک "جی آیاں نوں" کے لائق وہی ہے، جو مذہب کا مخصوص حلیہ اپنا لے، ظاہر داری کو جو اپنا شِعار بنا لے۔ اپنی محبتیں بھی یہ لوگ اسی پہ نچھاور کرتے ہیں، خوش آمد بھی یہ اسی کی کرتے ہیں۔

کیسی الٹی گنگا بہی ہے ہمارے معاشرے میں کہ جو شخص مسجد میں پانچ وقت کی حاضری کو یقینی بنائے، ڈاڑھی رکھ لے، مسجد بنائے، مدرسہ تعمیر کرے یا دامے درمے سخنے ان کے بنانے میں مدد کرے، پیروں، مولویوں اور نعت خوانوں کی خدمت کرے، زندگی میں کسی کو حج یا عمرہ کروا دے، ہر سال محرم اور ربیع الاول میں اپنے مسلک کے مطابق مخصوص سرگرمی دکھائے، یعنی پانی کی سبیل لگائے یا بریانی کی دیگیں تقسیم کرے، وہ نیک ہے۔ کردار کے حوالے سے وہ بھلے کتنا ہی نالائق، بےحس اور ناہنجار ہو۔ سینہ اس کا خواہ حسد، کدورت اور نفرتوں سے بھرا ہوا ہو، کسی بےبس کی بےبسی کو جو بےدردی سے نظر انداز کرے۔

میں ایسے کئی سرمایہ داروں کو جانتا ہوں جنھوں نے کوئی مسجد بنائی یا مدرسہ، تو اس کے نتیجے میں علما نے ان کے منہ پہ انھیں جنت کی بشارتیں سنائیں، انھیں ولایت کے درجے پہ فائز کیا، انھیں اللہ کا ولی قرار دیا۔ حالانکہ ان کی نِجی زندگی (personal life) گناہوں سے اس قدر لتھڑی پڑی ہوتی ہے کہ خدا کا خوف آتا ہے۔ پاس ان کے قارون کے خزانے ہوتے ہیں، مگر دیتے یہ کسی کو ٹکا تک نہیں۔ ہاں! نیک و پارسا مشہور ہونے کے لیے وہ کام کریں گے جو لوگوں کی نظروں میں آئیں۔ مسیت، مدرسے کے علاوہ ان میں ایک کام کسی کو نوکری دلوانا بھی ہے۔ جب یہ "نیکی" کا ارتکاب کر گزریں، تو پھر اس کا ڈھنڈورا پیٹنا نہیں بھولتے۔

ایسے ریاکاروں اور ظاہرداروں کو ان کی زندگی ہی میں نہیں، ان کی موت کے بعد بچھی صف ماتم پہ بھی نالائق مولویوں اور ناسمجھ لوگوں کی طرف سے جھوٹے تمغے ملتے ہیں۔ اوہ جی! وہ تو سیدھے جنتی ہیں۔ ایسوں کے اچھا ہونے کے لیے ظاہری عبادات (نماز، حج یا مسیت، مدرسے کی خدمت) ہی کے حوالے سبھی کے وِردِ زباں ہوں گے۔

کیسی بیہودہ روایت جنم لے چکی ہے ہمارے معاشرے میں۔ ہر وہ شخص جو ظواہر کا لبادہ اوڑھ لے، وہ ولی ٹھہرا۔ اندر سے خواہ کتنا برا ہو اور اس کے بالعکس جو عبادات میں تھوڑا خطاکار ہو، مگر انسانیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو، وہ اس ظاہردارانہ معاشرے میں گنہگار ہے۔ یہ لوگ وہ حدیث بھول جاتے ہیں، جس میں ایک فاحشہ عورت محض پیاس سے بلبلاتے کتے (انسان نہیں) کو پانی پلانے کی وجہ سے جنت میں چلی گئی۔

اصل ولایت تو انسانیت میں چھپی ہے۔ بھلے بندو! ایک بات یاد رکھیں! پورے ذخیرۂ احادیث میں ایک حدیث ایسی نہیں، جس میں حقوق اللہ ادا کرنے والے کو حقوق العباد کے معاملے میں معافی دی گئی ہو۔ ہاں! حقوق العباد کا لحاظ رکھنے والے کو حقوق اللہ کے معاملے میں کیے گئے گناہوں کی معافی ضرور دی گئی ہے۔

بابا علیم شکیل مرحوم قوم کے اس رائج معیار پہ پورا نہیں اترتے۔ یہ اپنے لقب "بابا" کے حوالے سے ایک مختلف کردار میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ عموماََ بابا کا لفظ پیر حضرات اور مذہبی شخصیات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ واحد دنیا دار ہے جسے بابا کا لقب ملا ہے اور یہ لقب یوں ہی نہیں ملا۔ سماج کے لیے ان کی اعلیٰ درجے کی خدمات اور نیک عادات کی وجہ سے ملا ہے۔ نیز صحافت کے باب میں بھی انھیں بابا قرار دیا گیا، بابائے صحافت۔

ظاہری عبادات کے حوالے سے ان کی دوچار بشری کمزوریاں ہم سب پہ عیاں ہیں۔ صلوٰۃ صیام کے حوالے سے ضرور ان سے کوتاہی سرزد ہوتی رہی۔ ایک مخصوص "مشروب" تو ساری زندگی ان کا حوالہ رہا۔ مگر دوسری طرف ان کی روز مرہ کی اخلاقیات بہت متاثر کن تھیں۔ اپنے پرائے سبھی ان کے معترف ہیں۔

یہاں عبادت کی تنقیص مقصود نہیں۔ مقصود اعلیٰ و ادنیٰ کے معاملے میں ترجیح کا ہے۔ قوم نے اپنی اصل شناخت حقوق اللہ کو بنا رکھا ہے، جن میں قدرت نے کوتاہی کی صورت میں معافی کی گنجائش رکھی ہے۔ جبکہ بندوں کے حقوق میں اس کا صاف اعلان ہے کہ وہی معاف کرے تو کرے، ایسا گنہگار مجھ سے معافی کی امید ہر گز نہ کرے۔

بابا جی نے حقوق العباد کے امور میں اپنی ذات پہ کوئی چھینٹا نہیں پڑنے دیا۔ کسی پہ آوازہ کسا نہ کسی سے ایسی بات کی جس سے اسے چبھن ہو۔ جب بولا، میٹھا بول بولا۔ مجھ ناچیز کی رائے میں لوگوں کو سکھ دینے کے معاملے میں آپ قصور کے حاجی عبدالستار صاحب کا عکس معلوم ہوتے ہیں۔ دونوں ہی اپنے قبیلے کا فخر ہیں۔ ہمارا خاندان بجا طور پر ان پہ ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔

ان کے عزیز دوست ہیتم تنویر اکرم صاحب اظہار کرتے ہیں: "بابا علیم بہت وسیع المشرب تھے۔ حیات بھر صلحِ کل کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔ دل کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ شہر بھر کا دل کا روگی، ناکام اور "تھڑیا" عاشق، بھنگی چرسی، منشیات فروش، جیب کترا، جرائم پیشہ، جواری، سود خور، بلیک میلر، کن ٹٹا صحافی، "تھکیا" سیاست دان یا بیروزگار مولوی ان کے آستانے پہ آ بیٹھتا اور خوب سمع خراشی کرتا (کن کھاندا) مگر آپ ماتھے پہ تیوری چڑھائے بغیر بڑے آرام سے سے ان سب کی واتوائیاں (لغویات) سنتے اور جواب میں ہوں ہاں کرتے رہتے۔ ایک دن کسی نے اس بابت پوچھا کہ بابا جی! کیا آپ ان کی بے کار کی باتیں سن کر اکتاتے نہیں؟ کہا: نہیں، سماج میں ہر طرف گند بکھرا پڑا ہے۔ میرا دماغ ہے کوڑے دان۔ سو وہ اپنا کوڑا (غم) میرے کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں اور میں چپ کرکے اسے رکھ لیتا ہوں۔

ساری زندگی انہوں نے فقیرانہ گزاری۔ ظاہر میں سوٹڈ بوٹڈ، صاف ستھرا لباس پہنتے تھے، بڑے لوگوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اندر سے مگر آپ کا بابا کبھی نہیں مرا۔ ظاہر کی چکا چوند کی آندھی ان کے اندر کے دیوں کی روشنی کبھی مدھم نہیں کر سکی۔ ان کا باطن ہمیشہ بُقعۂ نور رہا۔ آپ بڑی نکھری سی طبیعت لے کے آئے تھے خدا کے ہاں سے۔ لوبھ، حرص یا حسد کو دل میں کبھی جگہ نہیں دی۔ مکروہاتِ دنیا سے ہمیشہ پرے پرے رہے۔ دوستوں کی خوشی میں خوش اور ان کے دکھوں میں دکھی تھے۔ کسی کی نوکری لگ گئی یا کسی نے کسی تنظیم کا الیکشن جیت لیا، باباجی کے احساسات وہی ہوتے جو ان کے تھے۔ کسی کی کتاب چھپ جاتی تو دلجمعی سے اس کی پوسٹیں لگاتے۔ اخیر عمر میں ان کی نگاہ کمزور ہوگئی تھی۔ اس کے باوجود اوروں کی شاعری کمپوز کرتے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali