Aik Shagird Se Ustad Ki Shadi
ایک شاگرد سے استاد کی شادی

ہر چیز کو حلت یا حرمت کے پیمانے سے نہیں ناپاجا سکتا۔ اگر انسان کی نفاست متقاضی ہو کہ فلاں چیز سے بچا جائے تو اس سے بچنا چاہیے۔ مثلاً سماج میں ایک روایت سی چل پڑی ہے کہ اساتذہ اپنی ہی سٹوڈنٹس سے شادیاں رچانے لگے ہیں۔ یہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ کیونکہ استاد باپ کے قائم مقام ہوتا ہے اور شاگرد بیٹی کے قائم مقام ہوتی ہے۔
بے شک طالبہ محرم رشتوں کی ذیل میں نہیں آتی، مگر استاد کے روحانی باپ ہونے کے ناتے سے اس رشتے میں حرمت کی ہلکی سے بو ضرور آتی ہے۔ اسی وجہ سے سماج روحانی باپ بیٹی کے رشتے کو خاوند بیوی کے رشتے میں قبول کرنا پسند نہیں کرتا۔ مہذب لوگ اس رشتے پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں، اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
میرے شہر پتوکی میں کئی اساتذہ نے اپنی طالبات سے شادی کی ہے۔ جب کبھی ڈگری کالج میں اس حوالے سے بحث چھڑی ہے تو پروفیسر حضرات نے اس پہ چبھتی تنقید ضرور کی ہے۔ عام لوگ بھی یہی کہتے ہیں: "اونھے پڑھاندیاں پڑھاندیاں اونوں پھنسا لیا اے" یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی استاد اپنی شاگرد سے شادی رچا لے تو پھر وہ بےچارہ ساری زندگی وضاحتیں دیتا پھرتا ہے۔
ہمارے ایک استاد نے یہی حرکت شریف کی تھی۔ کئی بار انھیں کہنا پڑا کہ جی میری تو ارینج میرج تھی جبکہ اس کی لو میرج تھی۔ دراصل اس کی طالبہ اس پہ مر مٹی تھی۔ لیکن پھر بھی اسے اپنا دامن بچانا چاہیے تھا۔ شادی کے بعد جب آنکھیں چار ہوتی ہیں تب بندہ شرمسار ضرور ہوتا ہے۔ کیونکہ میاں بیوی کے رشتے کے پیچھے استاد اور شاگرد کے رشتے کی حرمت جھلک رہی ہوتی ہے۔ یوں یہ دونوں رشتے مکس ہو کر شرمندگی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ اپنی شاگرد سے شادی کرنے والے کو لوگ مہذب کم ہی سمجھتے ہیں۔
مذہب کی اگر بات کریں تو اس میں ہر چیز حلال یا حرام کے درجے پہ نہیں ہوتی۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو حلال ہوتی ہیں لیکن ان سے حرمت کی معمولی سی بو آتی ہے۔ سمجھداری کا تقاضا ہے کہ اس بو کی وجہ سے اس چیز کو حلال نہ سمجھا جائے، اس سے پرہیز کیا جائے۔ اسی طرح کچھ چیزیں ہوتی تو حرام ہیں مگر ان سے حلت کی ہلکی سی بو آتی ہے۔ اس صورت میں بھی اس حرام چیز سے بچنا چاہیے۔ بھلے اس میں حلت کی تھوڑی سی خوشبو آتی ہے۔
انسان کو اللہ تعالی نے نفیس بنایا ہے۔ اس کی نفاست کا تقاضا ہے کہ وہ حلت اور حرمت کے باب میں بہت حساس رہے۔ سب سے نفیس طبیعت اگر کس کی ہوتی ہے تو وہ پیغمبر کی ہوتی ہے۔ ایک پیغمبر اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ اسے ذرا گوارا نہیں ہوتا کہ اس کے کسی اقدام کی وجہ سے اس کی اخلاقیات کے متعلق کوئی سوال اٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے پوری زندگی ضب نہیں کھایا۔ ضب نجد کے صحراؤں میں پایا جانے والا ایک جانور ہے۔ اردو میں اسے سوسمار کہتے ہیں۔ یہ سانڈے کی شکل کی طرح کا ہوتا ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے۔ حضرت خالد بن ولید رض نے اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا کہ ضب حلال ہے یا حرام۔ آپ نے فرمایا یہ میرے علاقے میں نہیں ہوتا۔ اس لیے میں اس سے طبعی طور پر کراہت محسوس کرتا ہوں۔ ایک حدیث میں آپ کے سامنے دسترخوان پر صحرا کا یہ جانور کھایا گیا۔ آپ کو دعوت دی گئی مگر آپ نے نہیں کھایا۔ آپ کا اسے نہ کھانا آپ کی طبعِ لطیف یعنی نفیس طبیعت کا تقاضا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس جانور کے گوشت میں ہلکی سی سمیل آتی ہے۔ کچا پیاز اور کچا لہسن دونوں حلال ہیں۔ مگر آپ ﷺ نے ساری زندگی انھیں نہیں کھایا۔ سلاد کی ڈش تو پیاز کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ یہ دونوں چیزیں اس لیے نہیں کھائیں کیونکہ ان کے کھانے سے منہ سے ہلکی سی بو آتی ہے۔
اسی پر آپ قیاس کر لیں ایک استاد اور شاگرد کی شادی کو۔ ان میں بھی باپ بیٹی کی ہلکی سی بو آتی ہے۔ استاد اور شاگرد کی شادی اپنی ذات میں حرمت کی ویسی ہی بو رکھتی ہے جیسی ممانی، چچی یا تائی کے رشتے میں ہوتی ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے یہ تینوں رشتے بھلے حلال ہیں مگر ان رشتوں کے ساتھ ماموں، چچا اور تایا کا رشتہ منسوب ہونے سے یہ ایک لحاظ سے ماؤں کے قائم مقام ہو جاتی ہیں۔ ممانی، تائی یا چچی کے بھائی کو ہمارے معاشرے میں ماموں اور اس کے باپ کو نانا بولتے ہیں۔ کیا اس سے حرمت کی ہلکی سی بوباس نہیں آتی! شریعت میں ان رشتوں سے شادی جائز ہوتے ہوئے بھی ناجائز ہے۔
جب چچا باپ کے درجے پہ ہے، تایا باپ کے درجے پہ ہے اور ماموں باپ کے درجے پہ ہے تو پھر ان کی بیویاں ماؤں کے درجے پہ کیوں نہیں۔ اس لیے بہت کم سننے میں آیا ہے کہ فلاں نے اس رشتے سے شادی کر لی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ اس رشتے کو پسند نہیں کرتا۔ ایک مہذب انسان کی تہذیب کا تقاضا ہے کہ انہیں اپنی مائیں سمجھے، بس۔ اس طرح اساتذہ کو بھی اپنی طالبات کو اپنی روحانی بیٹیاں سمجھتے ہوئے ان سے نیا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہیے وگرنہ پھر اساتذہ اور شاگرد کے رشتے پہ لوگ اعتماد نہیں کریں گے۔ اسی طرح طالبات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اساتذہ کو اپنے باپ ہی کی نظروں سے دیکھیں۔
جاوید احمد غامدی صاحب دین کے ایک سنجیدہ طالب علم ہیں۔ استاد شاگرد کی شادی کے متعلق ان کا جواب یہ تھا کہ بھلے یہ خدا کی قائم کردہ حرمتوں میں شامل نہیں، لیکن مجھے یہ پسند نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے ایک عزیز دوست پنجاب یونیورسٹی میں استاد تھے۔ انہوں نے اپنی شاگرد سے شادی کر لی۔ میں نے خاص طور پر ان سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ نے ایک بری روایت قائم کی ہے۔ اس رشتے کا بھی ایک تقدس ہے۔ جب تقدس ختم ہوتا ہے تو رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کو اپنے مقامِ بلند پر رہنا چاہیے۔ اس منصب پر رہتے ہوئے انہیں اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھنا چاہیے۔ اساتذہ کا رشتہ اپنے طلبہ سے والدین کا ہوتا ہے۔ شادی سے یہ رشتہ مجروح ہو جاتا ہے۔

