Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Agar General Faiz Hameed Chief Of Army Staff Ban Jaate

Agar General Faiz Hameed Chief Of Army Staff Ban Jaate

اگر جنرل فیض حمید چیف آف آرمی سٹاف بن جاتے

یہ سوال جتنا اہم ہے، اس کا جواب اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ بہت سوں کو خبر نہیں کہ اگر جنرل فیض حمید چیف بن جاتے تو وہ کیا کرتے۔ یہ بےخبری سراسر باعث ہے ڈھنگ سے تاریخ کا مطالعہ نہ کرنے کی۔ جو بندہ قیام پاکستان سے آج تک کی سیاسی تاریخ کو، یعنی عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ کی باہمی کشمکش کو گہری نظروں سے نہیں دیکھتا، وہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔ اس جواب کی طرف آنے سے پہلے سردست یہ اظہار کرتے چلیں کہ آج تک کا سارا سیاسی فساد جس ایک شخص کا رہینِ منت ہے، وہ جنرل فیض حمید ہے۔ خان صاحب اور فوج کے درمیان جو پھڈا پڑا، وہ اسی بندے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ اس نے بننا تھا مستقبل کا چیف آف آرمی سٹاف۔ یہ ہوگیا باولا، غرض مند۔ دیوانگی کی ساری حدیں پار کر گیا۔ خان صاحب کے ہر حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا گیا۔ خان صاحب کی ہر ہاں میں ہاں اور ہر ناں میں ناں ملاتا چلا گیا۔ یعنی یس باس ٹائپ کی شخصیت تھا۔

دوسری چال اس کی یہ تھی کہ یہ بشری بی بی کے جن کا کردار ادا کر رہا تھا۔ "روحانی خبریں" یہی بی بی تک پہنچاتا تھا۔ پھر بی بی آگے جب خان صاحب کو بتاتی تو یہ اسے مافوق الفطرت ہستی سمجھنے لگتا۔ ضعیف الاعتقاد بندے کی یہی مصیبت ہے۔ الغرض ایک طرف اس نے خان صاحب کو جکڑ رکھا تھا اور دوسری طرف بی بی سے ساز باز کر رکھی تھی کہ تو میری چیف بننے کی راہ ہموار کر۔ پس فیض حمید اور خان صاحب کا باہمی ایگریمنٹ ہوا کہ اگلا الیکشن 2023ء کا فیض حمید خان صاحب کو جتوا کے دے گا اور بدلے میں خان صاحب نے اسے چیف بنانا تھا۔ اب دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت پا چکے تھے۔ اب اقتدار اور چیف کے مناصب (منصب کی جمع) ایسے ہیں، جن کےلیے کوئی سیاستدان یا جنرل کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ دونوں ہی کشتیاں جلا چکے تھے۔

یاد رکھیں! جنرل فیض، عمران خان کے لیے جنرل باجوہ سے بھی زیادہ اہم تھا۔ یہ وہ کردار تھا جس کے کھونٹے سے خان صاحب کا مستقبل بندھا تھا۔ جنرل باجوہ اگر خان صاحب کا حال، تو جنرل فیض مستقبل تھا۔ مستقبل اسے اعتبار سے کہ خان صاحب اس کی آشیر باد سے اقتدار کا 10 سالہ منصوبہ لے کے بیٹھے تھے۔ کلاسرا صاحب کے سامنے پی ٹی آئی والے بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ ہم 10 سال کے لیے آئے ہیں۔ 2023ء کا الیکشن انھیں جنرل فیض حمید نے جتوانا تھا۔ یہ پورا پلان چوپٹ تب ہوا، جب جنرل باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر کور کمانڈر پشاور بنایا۔

خیال رہے یہ ارادہ بلکہ عزم اکیلے جنرل باجوہ کا نہیں تھا، بلکہ اس کی پشت پہ اس کا ادارہ تھا۔ جی ایچ کیو کے سب جرنیلوں کا فیصلہ تھا کہ فیض حمید چیف بننے کی دوڑ سے باہر رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا بنی! تو جناب! اس کی وجہ بنی سینیئر جرنیلوں کی حق تلفی۔ ادارے کو پتہ چل گیا کہ خان صاحب تو باجوہ کے بعد فیض حمید کو آرمی چیف بنانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ فیض حمید چیف کے منصب کے لیے کے لیے پہلے چار پانچ جرنیلوں میں سے بھی نہیں تھے۔ اس اعتبار سے جو سینیئرز تھے، ان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ہر جنرل کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ فوج کی کمان سنبھالے۔

دوسری طرف خان صاحب کے لیے فیض حمید ایک ایسا قالین تھا جس کے نیچے اپنی ناقص کارگزاری کی آلائشیں چھپائی جا سکتی تھیں۔ اندازہ لگائیں! عوام کا منتخب نمائندہ اپنی طاقت عوام سے حاصل نہیں کر رہا، بلکہ اسے حاضر سروس چیف سے طاقت کشید کرنا تھی اور سوال یہ ہے کہ طاقت کا مرکز عوام کو کیوں نہیں سمجھ رہے تھے! اس لیے کہ عوام کی خوشحالی ترجیحات میں تھی ہی نہیں۔ سارا زور سوشل میڈیا کے محاذ پہ اپوزیشن کو رگڑا لگانے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے لگا رکھا تھا۔ خیر ادارہ ڈٹ گیا فیض حمید کو چیف نہ بنوانے پہ۔ پورا ڈیڑھ مہینہ خان صاحب فیض حمید کے لیے لڑے۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ اگر جنرل فیض حمید چیف بن جاتا تو کیا ہوتا! کیا وہ خان صاحب کے اس احسان کا بدلہ اس انداز میں چکاتے کہ 2023ء کی جیت کی ڈش بڑے اہتمام سے انھیں پیش کرتے! اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو غلطی پہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہر جنرل عہدہ ملنے سے پہلے وزیراعظم کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتا ہے۔ پھر عہدہ ملتے ہی وہ اپنی اصل اوقات میں آ جاتا ہے۔ یعنی اپنے ادارے کے ماتحت ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ انسانی فطرت ہے کہ خواہش پوری ہونے کے بعد بندہ پہلا سا نہیں رہتا۔ جیسے ادھار مانگنے والا کیسا عاجز اور شریف ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہی اسے ادھار ملتا ہے، وہ اپنے محسن سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ اس کا فون تک نہیں اٹھاتا۔ یعنی وہی نارمل بندہ ایک دم ابنارمل ہو جاتا ہے۔ اگر جنرل فیض حمید بھی چیف بن جاتا تو اسی نارمل شخص نے خان صاحب کے لیے ابنارمل بن جانا تھا۔

اس ضمن میں ایک لطیفہ نما حقیقت ملاحظہ کریں۔ شادی سے پہلے محبوبہ اپنے عاشق کے ساتھ جا رہی تھی۔ کسی چیز سے اسے ٹھوکر لگی تو وہ گر پڑی۔ اس پہ عاشق بے ساختہ کہتا ہے: کیا ہوا جانو! چوٹ زیادہ تو نہیں لگی! مگر یہی عاشق جب خاوند کا روپ دھارتا ہے اور بیوی کو چوٹ لگتی ہے تو یوں کہتا ہے: اندھی ہو کیا! کبھی دیکھ کے بھی چل لیا کر۔ اس لطیفے میں ایک حقیقت چھپی ہے۔ یہ انسان کی نفسیات کی عکاسی کرتی ہے کہ جب کوئی چیز اس کی دسترس میں نہیں ہوتی، تب اس کے دل میں اس کا بےحد احترام ہوتا ہے۔ یہ اس کے حصول کے لیے تڑپتا ہے۔ مگر جیسے ہی وہ چیز اسے ملتی ہے، وہ چیز اس کے لیے دو کوڑی کی ہو جاتی ہے، ٹکے کی اہمیت نہیں رہتی اس کے ہاں۔

یہ مثال صادق آتی ہے جنرل فیض حمید پہ۔ اس کی تمام تگ و دو کا واحد مرکز چیف آف آرمی سٹاف بننا تھا۔ اس کی ہر غلط سلط سرگرمی کے پیچھے فوج کی کمان کا حصول تھا۔ عہدہ ملتے ہی اس نے ٹھنڈا ہو جانا تھا۔ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لینی تھیں۔ اگر جنرل فیض حمید چیف آف آرمی بن جاتا، اس نے خان صاحب کی حمایت بالکل نہیں کرنی تھی۔ خان سے کیے گئے وعدوں سے مکر جانا تھا۔ خان صاحب کے ساتھ اس کا ہنی مون پیریڈ چند مہینے ہی چلنا تھا۔ چیف بننے کے بعد پھر اس نے اپنے ادارے کے زیرِ اثر آنا تھا۔

جنرل باجوہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بڑی منتوں، ترلوں اور سفارشوں کے بعد یہ چیف بنے تھے۔ نون لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی اس کے استاد تھے اس کے کالج کے دور میں۔ پھر باجوہ صاحب نے اپنے سسر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد کے ذریعے بھی سفارش کروائی تھی اپنے حق میں اور عرفان صدیقی صاحب کو بھی یقین دلایا تھا کہ میں اپوزیشن کی کسی سازش کا حصہ نہیں بنوں گا۔ اگر کبھی کڑا وقت آیا نواز شریف پہ تو اس کا ساتھ دوں گا۔ جنرل باجوہ اپنے اس کہے میں میں بالکل سچا تھا، اس کی یقین دہانیاں ٹھیک تھیں۔ اسی لیے جب وہ چیف بنا تو چند ماہ تک اچھا بچہ بنا رہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اپنے ادارے کے کنٹرول میں آتا گیا۔ کیونکہ جی ایچ کیو نواز شریف کی مخالفت میں پہلے سے کمر بستہ ہو چکا تھا۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا نواز شریف کو نکالنے کا۔ یہ مخالفت جنرل حمید گل کے دور سے چلی آ رہی تھی۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ کیونکہ جنرل راحیل ایکسٹینشن یعنی اپنی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع چاہتا تھا۔ نواز شریف کی ناں نے جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ خان صاحب کے دھرنوں کے پیچھے جنرل رحیل شریف اور جنرل ظہیر الاسلام ہی تھے۔

اب جب ادارہ نواز شریف کو نکالنے کی ٹھان چکا تھا تو باجوہ بےچارہ کیا کر سکتا تھا۔ کیونکہ پاکستان میں پاورفل آرمی چیف نہیں، آرمی ہے۔ آرمی ہی اپنے چیف کو طاقت دیتی ہے۔ اب طاقت لینے والا طاقت دینے والے کے خلاف کیونکر جا سکتا تھا! اس اصول کی روشنی میں فیض حمید نے چیف بنتے ہی خان صاحب کو کان سے پکڑ کر باہر نکالنا تھا۔ اس کے لیے کوئی سا طریقہ اپنایا جا سکتا تھا۔ پاکستان کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس کسی وزیر اعظم نے کسی کو چیف بنایا، جواباََ اسی نے اسے یا تو پھانسی لگوایا یا جیل میں ڈلوایا یا جلا وطن کیا۔ ضیا سے مشرف اور باجوہ تک سب یہی کردار تھے۔ فیض حمید نے بھی یہی تاریخ دہرانی تھی اور اپنے پیش روؤں کے نقشِ قدم پہ چلنا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جی ایچ کیو، پارلیمنٹ پہ حاوی ہے۔ چیف کا وزیراعظم کو اپنا باس ماننا، اس کی داخلہ خارجہ پالیسیوں پہ چلنا گویا اعلان ہے کہ پارلیمنٹ، جی ایچ کیو سے زیادہ طاقتور ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف، وزیراعظم کے ماتحت ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari