Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Aap Adalat Ke Judge Hain, Masjid Ke Molvi Nahi

Aap Adalat Ke Judge Hain, Masjid Ke Molvi Nahi

آپ عدالت کے جج ہیں، مسجد کے مولوی نہیں

پاکستان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی اپیل پر ایک اضافی نوٹ لکھا ہے۔ جس پر ملک کے تمام اہلِ دانش اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

سات صفحات پر مشتمل اس اضافی نوٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے اپیل کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو درست قرار دیا، جس میں مجرم کو نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ تاہم انھوں نے یہ بھی لکھا کہ لڑکے اور لڑکی کا لیو ان ریلیشن شپ نہ صرف معاشرتی بگاڑ ہے بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے لکھا کہ لیو ان ریلیشن شپ کا تصور معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور آج کل کی نوجوان نسل کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے۔

نور مقدم قتل کے مقدمے کے مدعی اور نور مقدم کے والد شوکت علی مقدم کے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کے اس اضافی نوٹ سے ان کے موکل کی دل آزاری ہوئی ہے۔

نور مقدم قتل کیس میں نوٹ لکھتے ہوئے اس جج میں لگتا ہے مولانا طارق جمیل کی روح حلول کر گئی تھی یا یہ خود کسی مسیت کا مولوی سمجھے بیٹھے تھے۔ آپ کا منصب قانونی نکات تک محدود ہونا ہے نہ کہ ایک واعظ بننا۔

ان کے اس "زریں" نوٹ پر چند سلگتے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ آج آئینی عدالت بنی ہے۔ ہو سکتا ہے کل کو "وجوہاتی عدالت" بھی بنانا پڑ جائے تاکہ ساتھ ہی قوم کو بروقت پتہ چلتا رہے کہ کون سا جرم کس چیز کا براہ راست نتیجہ تھا۔

نور مقدم کیس کے فیصلے میں جسٹس باقر علی نجفی صاحب کا اضافی نوٹ پریشان کن ہے۔ اسے پوری معنویت کے ساتھ زیر بحث آنا چاہیے۔ اس کا تعلق محض قانون کی موشگافیوں سے نہیں، سماج کے تہذیبی ڈھانچے سے بھی ہے۔ لگتا ہے ہر بندہ اپنا منصب چھوڑ کر ایک دانشور، ایک بقراط اور اخلاقی رہنما بننے کی فکر میں ہے۔ جیسے جسٹس ثاقب نثار المعروف بابا رحمتے کو عدلیہ کے ادارے کی روز افزوں بڑھتی بربادی یاد نہیں رہی اور وہ ہسپتالوں کو ٹھیک کرنے اور ڈیم بنانے کے چکروں میں پڑ گیا۔ ایسے ہی یہ نجفی صاحب ہیں۔

جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ یہ کیس معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائی لیو ان ریلیشن شپ، کا براہ راست نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک جج کا بنیادی فریضہ اپنے سامنے رکھے مقدمے پر قانون کا اطلاق ہے یا اس سے آگے بڑھ کر سماج کی رہنمائی کرنا، معاشرے کی صورت گری کرنا یا مولوی بننا بھی ان کا کام ہے کہ کون سا جرم کس چیز کا براہ راست نتیجہ ہے!

ہمارے ہاں خلطِ مبحث بہت ہو جاتا ہے، یعنی چیزیں خلط ملط ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ اس بحث کو بعض ملا ٹائپ حضرات نے اس نکتے تک محدود کر دیا ہے کہ کیا لیو ان ریلیشن شپ، ایک برائی نہیں! اور اگر ایک برائی کی نشاندہی کر دی گئی ہے تو اس پر اتنا شور کیں مچا دیا گیا ہے!

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں لیو ان ریلیشن شپ زیرِ بحث نہیں ہے۔ یہاں زیرِ بحث یہ چیز ہے کہ ایک جج صاحب کو مقدمے پر فیصلہ دینا چاہیے یا ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ فلاں جرم کس چیز کا براہ راست نتیجہ ہے۔

ایک عام آدمی کی بات اور ایک جج کے فیصلے میں فرق ہوتا ہے۔ منصف کا فیصلہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ اس فیصلے میں اگر قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ جرم کی وجوہ اور اسباب پر بھی بات ہونا شروع ہوگئی تو اس سے جورسپرووڈنس (وہ علم ہے جو یہ بتاتا ہے کہ قانون کیوں بنتا ہے، کیسے بنتا ہے اور اسے کیسے سمجھا جاتا ہے، قانون کی فلاسفی) کی دنیا میں بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ آج آئینی عدالت بنی ہے۔ ہو سکتا ہے کل کو وجوہاتی عدالت، بھی بنانا پڑ جائے تاکہ ساتھ ہی قوم کو بروقت پتہ چلتا رہے کہ کون سا جرم کس چیز کا براہ راست نتیجہ تھا۔

لیو ان ریلیشن شپ پر الگ سے بات ہو سکتی ہے، سماجیات اور مذہب کے ماہرین اس سلسلے میں رہنمائی کر سکتے ہیں اور کرنی چاہیے، لیکن جب یہ بات عدالت کے فیصلے میں آتی ہے، تو اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ یہاں پھر سوال یہ نہیں رہتا کہ لیو ان ریلیشن شپ اچھی چیز ہے یا بری، یہاں سوال یہ ہو جاتا ہے کہ ایک جج کا بنیادی کام کیا ہے۔ جرم پر قانون کا اطلاق کرنا یا جرم کی وجوہات پر رہنمائی کرنا۔

عدالت جب فیصلہ دیتی ہے تو معاملے کے حقائق سامنے رکھتی ہے اور اس معاملے کے ماہرین کو سن کر فیصلہ دیتی ہے۔ قانون کے معاملات پر وکلا موجود ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا دورانِ سماعت جرم کی وجوہات جاننے کی کوئی مشق ہوئی تھی اور متعلقہ ماہرین سے اس بارے میں کچھ سوال جواب ہوئے تھے کہ کیا یہ جرم واقعی لیو ان ریلیشن شپ کا منطقی نتیجہ ہے یا اس کے اسباب کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں!

ایک خاتون جو بے رحمی سے قتل ہوگئی، اس کے قتل کو لیو ان ریلیشن شپ کا نتیجہ قرار دینا ایک طرح سے اس کے کردار پر سوال اٹھانا ہے۔ خاتون تو اب موجود نہیں کہ اپنا دفاع کر سکے۔ اس کو تو اب سنا ہی نہیں جا سکتا۔ تو کیا کسی کو سنے بغیر اس کی قبر پر لیو ان ریلیشن شپ کے الزام کا جھنڈا گاڑا جا سکتا ہے! قانون کی دنیا کے خواتین و حضرات کو سوچنا ہوگا کہ کیا یہ وکٹم بلیمنگ تو نہیں! سیدھا الزام تو نہیں! شرعی قوانین کے ماہر اساتذہ اور علما سے پوچھا جانا چاہیے کہ قذف (تہمت) کسے کہتے ہیں۔

معاف کیجیے، مگر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ تو زنا کا الزام ہے۔ کیا شریعت کے مطابق ایسے چار گواہ موجود تھے اور عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے کہ ہاں یہ لیو ان ریلیشن شپ تھا اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں؟ اگر گواہ بھی موجود نہیں، ایک فریق اس دنیا میں ہی نہیں رہا، تو پھر اس جرم کو محض ایک فریق ظاہر جعفر کے کہنے پہ کہ اس کے ساتھ میرا خاص تعلق تھا، لیو ان ریلیشن شپ کا نتیجہ قرار دینا مقتولہ کے خاندان کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک چیز ہو سکتی ہے۔

اس مقدمے کے دوران کیا یہ چیز کسی شک و شبہے سے بالاتر درجے میں ثابت ہوئی تھی کہ یہ لیو ان ریلیشن شپ ہی تھا؟ کیا یہ ثابت ہوگیا تھا کہ یہ قتل واقعی لیو ان ریلیشن شپ ہی کا نتیجہ تھا؟ کیا مقتولہ نے مرتے وقت اعتراف کیا تھا میرے منصفوں تک خبر پہنچا دینا کہ میرا کردار ٹھیک نہیں تھا؟ اگر یہ محض ایک گمان یا قیاس یا تاثر ہے، تو کیا گمان قیاس اور تاثر کو فیصلے میں امر واقعی بنا کر پیش کرنا ایک مناسب چیز ہے؟

یہ تو گویا فیصلہ سنا دیا گیا کہ لڑکی اس لیے ماری گئی کہ اس کا کردار ٹھیک نہیں تھا۔ وہ لیو ان ریلیشن شپ میں تھی اور اس تعلق کا نتیجہ تو پھر قتل ہی نکلتا ہے۔ یعنی خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔

اس اختلافی نوٹ پر پارلیمان میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔ یہ ایسی چیز نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے۔ پس جج حضرات جج رہیں، مولوی نہ بنیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan