Aala Zarfi Quran Ki Roshni Mein
اعلیٰ ظرفی قرآن کی روشنی میں

زندگی میں بعض اوقات انسان کو سخت مرحلے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایک ایسا مرحلہ جو اسے شدید دھچکا لگاتا ہے، اس کا غضب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے۔ اسی کا دوست دوستی کے پردے میں دشمنی کا کھیل کھیلتا ہے، اس کی پیٹھ پیچھے وار کرتا ہے۔ بندہ سوچتا ہے کہ اس شخص پہ میری یہ یہ عنایات تھیں، اس کے ہر ہر برے موقع پہ میں مہربان رہا۔ اس کے باوجود اس نے میرے پردے فاش کیے، میرے راز کھولے، میری ذات پہ کیچڑ اچھالا، میری ماں، بہن، بیٹی پہ تہمت لگائی وغیرہ وغیرہ۔ تو یہ وقت ہوتا ہے انسان کے ظرف کے امتحان کا۔ حیوانی جبلت کے زیرِ اثر وہ سوچتا ہے کہ اسے عبرت کا نشان بنا دے۔
اس ضمن میں قرآنِ پاک ہماری خاص رہنمائی کرتا ہے۔ خدا کا حکم ہے کہ مغلوب الغضب بندہ اس ناہنجار سے درگزر کرتے ہوئے معاملہ اللہ پہ چھوڑ دے اور اس کی وہ امداد جاری رکھے جو وہ کر رہا ہے۔ یہ کیا ہے! اعلیٰ ظرفی۔
یاد رکھیں! خدا ایک اعلیٰ ظرف ذات ہے۔ انسانوں کے گناہوں کے باوجود وہ انھیں معاف کرتا، ان سے درگزر کرتا ہے۔ بندہ اس کا گنہگار ہے، وہ پھر بھی دیتا ہے۔ اب خالق اِسی ظرف کا مطالبہ اپنی مخلوق سے بھی کرتا ہے۔ ایک واقعہ ملاحظہ کریں، جو مستند ہے اور اپنا ایک مذہبی پس منظر رکھتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت اس واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
حضرت مِسطحؓ، جو واقعۂ اِفک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے۔ رشتے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے خالہ زاد تھے۔ اسی لیے حضرت ابوبکرؓ ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے۔ ام المؤمنین کے کردار پہ منافقین نے تہمت دھر دی۔ حضرت مسطحؓ نے اڑتی یہ خبر سنی تو وہ بھی حضرت عائشہؓ کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا۔ چناچہ نزولِ براءت، یعنی سورۂ نور کی دس آیات کے نازل ہونے کے بعد غصے میں انھوں نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیقؓ کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقامِ صدیق اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا۔ اللہ تعالیٰ کو ابو بکر کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور ایک آیت "اور تم میں فضیلت والے اور (مالی) گنجائش والے یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتے داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (مال) نہ دیں گے اور انہیں چاہیے کہ معاف کردیں اور دَرگزر کریں۔ کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش فرمادے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے"۔
نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ (جلد بازی پہ مبنی) بشری کمزوری پہ انھیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے! کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے! یہ اندازِ بیاں اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیقؓ بےساختہ پکار اٹھے کہ کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے حسب سابق مسطح کی مالی سرپرستی شروع فرما دی (فتح القدیر) ابن کثیر۔
اسی سے جڑا ایک واقعہ یاد آیا۔ رؤف کلاسرا صاحب اس کے راوی ہیں۔ مرحوم ڈاکٹر ظفر الطاف نے اپنے محکمہ زراعت میں ایک شخص کو ملازمت دلوائی۔ وہی شخص ان کے خلاف لوگوں کے کان بھرنا شروع ہوگیا۔ اس پہ مستزاد وہ کسی کرپشن میں بھی ملوث پایا گیا۔ اس کی فائل تیار ہوئی اور ایک افسر وہ فائل لیے ان کے دفتر میں آن پہنچا۔ کہا کہ آپ اس پہ سائن کریں تاکہ اس کی چھٹی کروائیں۔ مرحوم نے فوراََ ناں کر دی۔ وہ فائل لے جانے لگا، تو اسے بلا کر اس سے فائل لی اور اسے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ کلاسرا صاحب حیرت سے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔ ان سے رہا نہ گیا اور پوچھا کہ ایسا کیوں کیا! ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مانا وہ محسن کشی پہ تلا ہے، مگر اسے ملازمت سے نکالنا مجھے ہمیشہ کے لیے اس کا مجرم ٹھہرا دے گا۔ اس کے جرم کی سزا اس کی بیوی بچوں کو بھی ملے گی، جو بالکل بے گناہ ہے۔ وہ میرے خلاف بولتا ہے، تو بولتا رہے۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے!
یہ ہے وہ اعلیٰ ظرفی، یہ ہے وہ کردار کی بلندی، خالق جس کا مطالبہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے۔

