Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aziz Zahira Malik/
  4. Zimni Intikhabat Aur Dhandli

Zimni Intikhabat Aur Dhandli

ضمنی انتخابات اور دھاندلی

پچھلے ہفتے ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور دھاندلی کا ہونے والا واقعہ چینلز اور اخبارات کے اہم صحفے کی زینت بنا رہا اور ہر روز اس واقعے کے بارے میں نئی نئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ تاہم اس دن کے ہونے والے انتخابات کے نتائج کو موخر کردیا گیا ہے اور الیکش کمیشن نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس حلقے کے انتخابات دوبارہ ہوگئے۔ پہلے ہونے والے انتخابات کے نتائج کو اس لیے موخر کیا گیا ہے کہ اس میں دھاندلی ہوئی تھی پاکستان میں دھاندلی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ دھاندلی صدیوں سے حکمرانوں اور طاقتور افراد کے لیے ایک مضبوط ہتھیار رہی ہے جسکا استعمال بااثر عوام پر استعمال کرتے ہوئے اپنا مقصد نکالتے ہیں۔ یہ ہر الیکشن اور ہر اس عمل پر استعال ہوتی ہے جس میں عوام کسی بھی نمائندے کو کسی اختیار میں منتخب کرنے کے لیے ووٹ اکھٹے کرتی ہے۔ دھاندلی ہمیشہ ہر اس جگہ پر عمل درآمد میں لائی جاتی ہے جس میں انظامیہ کمزور، حکمران بے حس اور جانبدار ہو۔ جہاں ایک فریق طاقت اور دولت کے نشےمیں چور ہو اور طاقتور ہمیشہ دھاندلی کا سہارا لے کر میدان میں کامیابی کا جھنڈا گاڑتا رہے۔ دھاندلی کی تاریخ بڑی قدیم و وسیع ہے اور آج کے دور میں بھی یہ بطور ہتھیار استعمال ہورہی ہے اور نہ جانے اسکا انجام کب ہوگا۔ دھاندلی کے واقعات تو قیام پاکستان کے بعدسے پاکستان کے ہر قومی وصوبائی الیکشن میں دھاندلی کے واقعات ہوتے رہے ہیں جیسے کہ(۔۔۔۔)میں پہلے صوبائی انتخابات میں دھاندلی کا واقعہ دیکھنے میں آیا۔ (۔۔۔۔۔)کےالیکشن میں بھی کئی حلقوں میں دھاندلی کے واقعات رونما ہوئے۔

دھاندلی کا تازہ ترین واقعہ ڈسکہ میں دیکھنے میں آیا اور دھاندلی کا اس قدر زیادہ استعمال کیا گیا کہ بالااخر الیکشن کمیشن بھی میدان میں آگیا اور نتائج روک لیے گئے۔ دھاندلی کا زیادہ استعمال منصوبے کے مطابق چھپ کر کیا جاتا پے لیکن اس حلقے کے الیکشن میں اس قدر بدمعاشی سے دھاندلی کا استعمال کیا گیا کہ دن کے وقت سرعام ہوائی فائرنگ کرکے لوگوں میں بھگدڑ مچوا کر پولنگ کو بند کروایا گیا۔ پانچ موٹر سائیکل سوار اسلحہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے جگہ جگہ ہوائی فائرنگ کرکے لوگوں میں خوف وہراس پھیلایا گیا اور اس طرح پولنگ سسٹم کو بند کردیا گیا۔ تاہم۔۔۔۔ فروری کو اس نشست میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے اختیار ولی اکیس ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے محمد عمر کاکا خیل صرف سترہ ہزار ووٹ حاصل کرسکے۔ لیکن دھاندلی کے برعکس الیکشن کمیشن نے اس انتخابات کے نتائج کو موخر کردیا اور یہ اعلان کیا کہ اس حلقے میں اب دوبارہ ضمنی انتخابات ہوگئے۔ اس حلقے کے لیڈروں کی طرف سے شکایات اور عین الیکشن کے دن ہونے والی دھاندلی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اڑھائی سال گزرنے کے بعد بھی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی سول انتظامیہ پر کوئی گرفت نہیں ہے اور نہ ہی یہ پولنگ ایجنٹس کو تحفظ فراہم کرسکے ہیں۔

تاہم ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور تئیس لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کا کئی گھنٹے تک غائب رہنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ بیس پولنگ سٹیشنز کے نتائج پر شبہ ہےجس کی وجہ سے بغیر انکوائری کے نتائج ظاہر کرنا ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کےمطابق ڈسکہ میں ہونے والا واقعہ یہ ظا ہر کرتا ہے کہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اپنے فرائض بخوبی سرانجام نہیں دے رہیں ہیں۔

ای سی پی کے مطابق عملہ کے لاپتہ ہوتے پر چیف کمیشنر آف سکندر سلطان راجہ نے آئی جی پنجاب، کمشنر گوجرانولہ، اور ڈی سی گوجرانوالہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ البتہ چیف سیکرٹری پنجاب سے رات تین بجے رابطہ ہونے پر انھیں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ گمشدگاہ افسران اور پولنگ بیز کوضرور ڈھونڈا جائے گا۔ اسکے بعد صبح چھ بجے پریذائیڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ حاضر ہوئے۔ البتہ الیکشن کمیشن نےانتظامیہ کی جانب سے ہونے والے کوتاہی برتنے پرافسران کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔

اگر ہم سب لوگ اس وطن عزیز کے افراد ہونے کی صورت میں سوچے تو یہ واقعہ ہم سب کو جھنجوڑنے، ہم کو نیند سے جگانے کے لیے کافی اہم ہے۔ ہمارے ملک میں ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا رونا رویا جاتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں دھاندلی ہوگئی، سارا مینڈینٹ چوری ہوگیا، رونا دھونا سب چلتا ہے لیکن آخر کار یہ سب کب تک چلتا رہے گا۔ ہمیں ایک ایسے عمل کی ضرورت ہے جس کی بناء صاف وشفاف انتخابات ہوسکے کوئی کسی پر دھاندلی کا الزام نہ لگا سکے۔ (۔۔۔۔۔)کے انتخابات میں تحریک انصاف نہ اپوزیشن پر دھاندلی کے الزام لگائے اور اس کی وجہ سے وہ سڑکوں پر تھی۔ لیکن پی ٹی آئی اپنے دور حکومت میں ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی کوئی ایسا کام نہ کر سکی کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی کو ختم کیا جائے۔ ابھی صرف ایک حلقے میں یہ واقعہ ہوا ہےاور اب اسی نظام نے اسی الیکشن کمیشن نےپورے بلدیاتی انتخابات بھی کروانے ہیں۔ اڑھائی سال بعد پورے ملک میں قومی و صوبائی انتخابات بھی ہوگئے۔ ابھی ایک حلقے میں دو ہلاکتیں ہوئی ہیں اور خدانخواستہ جب پورے ملک میں انتخابات ہوگئے تو پھر کیا صورتحال ہوگی۔ لہذا ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت اس کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھا لے۔

یہ ضمنی انتخابات، حکومت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی، حکومت اپنے گھر نوشہرہ میں ہار گئی، خیبر پختونخواجہاں سے ساڑھے سات سال سے تحریک انصاف کا راج وہاں گروہ بندی بلکہ ایک خاندانی جھگڑے کی وجہ سے ہارجانا، یہ اس لیے تشویش کی بات کہ ایسی گروہ بندیاں، اختلافات تحریک انصاف کے ہر دوسرے حلقے میں موجود، نوشہرہ پرویز خٹک کا آبائی شہر، وہی پرویز خٹک جو کل ایک جلسے میں کہہ رہے تھے، میں تیلے کو بھی کھڑا کروں تو وہ بھی جیت جائے، اسی پرویز خٹک کا امیدوار ہار گیا، وہی پرویز خٹک جو کل کہہ رہے تھے، جسے چاہوں بنادوں، جسے چاہوں گرادوں، چاہوں تو عمران خان کی حکومت ایک دن میں گرادوں، وہی پرویز خٹک اپنے بھائی، بھتیجے کے ہاتھوں ہار گئے۔

یہ ضمنی انتخابات، مسلم لیگ ن کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی، بلاشبہ مسلم لیگ نے نوشہر ہ میں تحریک انصاف کی سیٹ جیت لی مگر مسلم لیگ کی طاقت پنجاب، سینٹرل پنجاب مسلم لیگ کا گڑھ، گوکہ مسلم لیگ نے وزیرآباد ایم پی اے کی اپنی سیٹ دوبارہ جیت لی مگر مسلم لیگ نے 2018ءکے انتخابات میں یہی سیٹ تقریباً 28ہزارووٹوں کی لیڈ سے جیتی، 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار نے اکیس ہزار 7سو بانوے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار نے 59ہزار دو سو 67ووٹ لئے، اس بار وہ سیٹ جو مسلم لیگ نے تقریباً 28ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتی تھی، وہی سیٹ اس بار 4ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتی، یہاں تحریک انصاف نے 2018ءکے انتخابات کے مقابلے میں دوگنا ووٹ لئے، جبکہ مسلم لیگ ن نے تقریباً 6ہزار ووٹ کم لیئے، اسی طرح ڈسکہ میں ہوا، گوکہ ڈسکہ میں دھاندلی کے الزامات پر نتیجہ رو ک دیا مگر یہاں بھی تحریک انصاف نے 2018کی نسبت زیادہ ووٹ لئے۔

تاہم ڈسکہ ضمنی انتخابات کا واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم سب اپنی آنکھیں کھولے اور نیند سے بیدار ہوکر خود کو جھنجور کر یہ سوچے کہ آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا اور کب ہم ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کچھ کریں گئے۔

Check Also

Governor Hai Aik Bhala Sa

By Najam Wali Khan