Sunday, 23 June 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Busson Ke Anjan Musafir, Taraqqi Ke Aage Bebas Ho Gaye

Busson Ke Anjan Musafir, Taraqqi Ke Aage Bebas Ho Gaye

بسوں کے انجان مسافر، ترقی کے آگے "بے بس" ہو گئے

آٹھویں جماعت میں تھا کہ بس سے سفر کا آغاز کر دیا۔ نویں جماعت تک کچھ عرصے روزانہ دو بسیں بدل کر اسکول آنا جانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد گھر کے پاس سے ایک بس سیدھی اسکول جانے لگی۔ کالج اور ملازمت کے ابتدائی سال بھی بس شریک سفر رہی۔ بس میں اگر سیٹ مل جائے تو نعمت ورنہ راستے بھر زحمت رہتی ہے۔ لوگوں کی چہرے پڑھنے اور کہانی بنانے کی شروع سے بیماری رہی۔

اب بسیں ہی کہاں رہیں۔ لوگوں نے موٹر سائیکلیں، گاڑیاں خرید لی ہیں۔ گھر سے ایپس کے ذریعے لانے جانے والی موٹر سائیکلیں اور کاریں دستیاب ہیں۔ پہلے اسثیٹس کی جنگ نہ تھی۔ لوگ سادہ تھے۔ بسوں میں سفر کرکے شرمندہ نہ ہوتے۔ اگر کوئی جاننے والا مل جاتا تو نظریں نہ چراتے۔ روز کے مخصوص وقت کے مسافر ایک گھر کی طرح ہوتے۔ ان میں بھی گھر کی طرح ہر مزاج کے لوگ ہوتے۔ زیادہ تر تہزیب یافتہ ہوتے تو کچھ بدتمیز مگر روز ایک ہی وقت تھوڑی دیر کی مسافت قربت پیدا کر دیتی جس میں پیسوں کی غربت کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔

اپا دھاپی کا دور نہ تھا۔ مسافر در گزر سے کام لیتے۔ بس چاہے بھری ہو یا خالی۔ بیٹھنے کی جگہ ملے نہ ملے مگر دل میں ایک دوسرے کے لیے جگہ ہوتی۔ وہ جو زرا اجڈ یا تلخ لہجے کے لوگ ہوتے۔ روز روز ایک ہی وقت میں سفر کرتے انہیں بھی اندازہ ہو جاتا کہ آداب سفر کیا ہیں۔ بات کیے بنا ایک دوسرے سے ملاقات ہو جاتی۔

کون کہتا ہے ملاقات نہیں ہوتی ہے

روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے

یہ ملاقاتیں بغیر گفتگو کے بھی بہت بامعنی اور ہمدردانہ ہوا کرتی تھیں۔ دلوں میں احترام کے رشتے ہوتے جو خون کے رشتوں سے بھی زیادہ مضبوط اور بے غرض ہوتے۔

ایک بس میں کئی کہانیاں سفر کر رہی ہوتیں۔ کچھ کے چہروں ہر سب لکھا ہوتا اور کچھ اپنی کہانیاں چھپانے کے ایسے ماہر ہوتے کہ گھر تو گھر بس میں بیٹھے لوگوں پر بھی نہیں کھلتے لیکن ایسا بھی نہیں تھا کچھ جہاں دیدہ لوگ تاڑ ہی جاتے۔ یہ کوئی دانستہ کوشش نہ ہوتی بس یوں ہی بیٹھے بیٹھے کچھ تو سوچنا ہوتا۔ بسوں میں سفر کے اوقات چہرے کے تاثرات بدل دیتے۔ صبح دفتر جاتے آدمی کے لباس سے اس کی مالی حیثیت اور چہرے سے موڈ کا اندازہ لگا لیا جاتا۔ شام میں تھکے ہارے مسافر کے چہرے پر گھر اور اس کے مسائل لکھے ہوتے۔ لوگ ایک دوسرے کا چہرے دیکھ کر خوشی یا پریشانی کا اندازہ لگا لیتے۔

اب کا تو پتہ نہیں۔ پہلے بسوں کے کنڈیکٹر بھی قیامت کے چہرہ شناس ہوا کرتے تھے۔ ادھر سے ادھر سے چڑھ جانے والوں مسافروں سے کسی اور انداز اور لہجے میں کرایہ مانگتے اور آگے جانے کا کہتے۔ روز کے مسافروں سے معاملہ مختلف ہوتا۔ اسکول کالج جانے والوں کی کہانی الگ ہی ہوتی۔ ان کے مسئلے مختلف۔ با ان کے آنے سے یہ ہوتا کہ بس کی خاموش فضا میں ایک زندگی ا جاتی۔ بالکل ایسے جیسے گھر کے ماحول میں بچے آ کر چھیڑ چھاڑ شروع کر دیں۔

مسافر کے بٹوے سے پیسے نکال کر دینے تک سے یہ اندازہ ہو جاتا کہ یہ مسافر کنجوس ہے یا کھلے ہاتھ سے خرچ کرنے والا ہے یا اعتدال کا عادی ہے۔ بس ایک ایسا سفر تھا کہ جو آپ کی اخلاقیات بتا دیتا تھا۔ تعلیم و تربیت کیسی ہے؟ انسان کتنا چڑچڑا اور بد لحاظ ہے؟ کتنا دوسروں کا خیال کرنے والا ہے؟ کس کے مزاج میں کتنی جلد بازی ہے۔

بھری بس میں مسافر کے کھڑے ہونے پر اس کی قوت برداشت کا اندازہ ہو جاتا۔ جس سیٹ کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ خود کو دھکا لگنے پر سیٹ پر بیٹھے مسافر کو کس طرح محفوظ رکھنا ہے۔ مسافر کے سیٹ خالی کرنے پر جلد بازی نہیں کرنی ہے۔ ایسے میں اس مسافر کے ساتھ کھڑا دوسرا نیا مسافر کبھی کبھی اپنی ٹانگ آگے کرکے سیٹ پر قابض ہو جاتا۔ جسے ساتھ کھڑے لوگ اچھا نہ سمجھتے۔ کچھ تو اس مسافر سے اس سیٹ تلفی پر کہہ بھی دیا کرتے بلکہ جس مسافر کی حق تلفی ہوتی انہیں اپنی سیت پر بٹھا بھی دیا کرتے۔ گو کہ وہ منع ہی کرتا رہ جاتا مگر وہ ہاتھ پکڑ کر بٹھا ہی دیا کرتے۔

اگر کوئی مسافر کچھ دن نہ آتا تو ذہن بہت کچھ سوچتا۔ جب وہ ایک دن لوٹ آتا ہے تو دل انجانی خوشی سے سرشار ہو جاتا۔ روز کے مسافر ایک دوسرے کی عمر کا خیال کرتے اور اہنی سیٹ دے دیا کرتے۔ سب کو پتہ ہوتا کہ کون کہاں اترے گا۔ اترتے مسافر کی عمر زیادہ ہوتی اور بس صحیح طرح نہ رکتی تو مسافر ڈھب ڈھب شروع کر دیتے بلکہ چلا چلا کر کنڈیکٹر اور ڈرائیور سے بس روکنے کا کہتے۔ بس میں اچھے برے لوگ سب ہی ہوتے۔ برے واقعات بھی ہوتے لیکن جس کا جو تجربہ ہوگا۔ وہ وہی بیان کرے گا۔

ترقی اچھی بات ہے۔ ضروری ہے زندگی کے لیے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس میں انسان سے انسان کی محبت بڑھتی، احترام کی سوچ پروان چڑھتی۔ بسیں ختم نہیں ہوئیں۔ مجھ سے پوچھیں تو ہم ایک ایسے معاشرے سے محروم ہو گئے ہیں جہاں انجانے لوگوں سے بھی محبت کی جاتی تھی۔ انسان چہرے پڑھنے کا ہنر سیکھ لیتا تھا۔ ایک دوسرے کے لیے ایک انجانی انسیت پیدا ہو جاتی تھی۔

اب ہم ترقی کے آگے بے بس ہو گئے ہیں۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Takhallus

By Abid Hussain Rather