Char Sala Taleemi Safar Ki Dastan
چار سالہ تعلیمی سفر کی داستان

یونیورسٹی کے پہلے دن یہی سوچا تھا کہ یہ چار سال کب ختم ہوں گے؟ آج انہی چار سالوں کا آخری دن اپنی اختتام کو آپہنچا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پلک جھپکتے ہی یہ عرصہ بیت گیا۔ یہ سفر میرے لیے نہ صرف علم حاصل کرنے کا وسیلہ بنا بلکہ دوستیوں، تجربات اور زندگی کے سبقوں سے بھری ایک خوبصورت داستان بھی رقم ہوئی۔ اس سفر سے بے شمار یادیں وابستہ ہیں جن کو بھولنا ناممکن لگتا ہے۔ یہ تحریر ان لمحوں کی یاد ہے جن کو تاحیات بھلایا نہیں جا سکتا۔
جب میں نے اور میرے دوست مہراللہ جمیل نے گورنمنٹ عطاشاد ڈگری کالج تربت سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا تو ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹی کا رخ کریں گے۔ پہلے یہ کشمکش تھی کہ کس یونیورسٹی میں داخلہ لیں، کیا شہر سے باہر جائیں یا اپنے شہر تربت میں رہ کر تعلیم جاری رکھیں۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ یونیورسٹی آف تربت میں داخلہ لیں گے۔ دوسری کشمکش یہ تھی کہ کس شعبے میں داخلہ لیں۔ چونکہ میں نے پری میڈیکل جبکہ میرے دوست نے کمپیوٹر پڑھا تھا۔ والدین اور کرم فرماؤں کی رہنمائی سے ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شعبہ معاشیات (Economics Department) میں داخلہ لیں گے۔ پھر ہم نے شعبہ معاشیات میں داخلہ لیا اور اس سفر کا آغاز 2022 کے شروعاتی دنوں میں ہوا۔
یونیورسٹی کا پہلا دن تو یادگار ہی ہوتا ہے۔ جب یونیورسٹی میں پہلا قدم رکھا تو ہر طرف ہلچل سی تھی، نوجوانوں کے قہقہے، کتابوں کا شور اور خوابوں کی چمک ہر چہرے پر نمایاں تھی۔ ہر کوئی اپنے خوابوں کی تکمیل میں مصروف تھا۔ میں نے بھی اپنے خوابوں کے ساتھ اس سفر کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ایک ہلکی سی الجھن تھی کہ کیا میں خود کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کر پاؤں گا؟ کیا میں اس سفر کی منزل تک پہنچ پاؤں گا؟ لیکن میری لگن اور محنت نے ان الجھنوں کو دور کر دیا۔
کلاس کے سب چہرے میرے لیے انجانے تھے ماسوائے مہراللہ جمیل کے۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے تو کچھ چہرے رفتہ رفتہ مانوس ہونے لگے۔ انہی دنوں میں ساجد غنی، اعجاز الحق، عطاءاللہ، مشتاق احمد اور غلام رسول میرے دل کے قریب ہوتے گئے۔ وہی ساتھی جن کے ساتھ وقت ہنسی میں بھی گزرا اور خاموشیوں میں بھی۔ ان کی صحبت اور معاونت نے اس سفر کو تکمیل تک پہنچایا۔
رفتہ رفتہ ہماری قربت بڑھتی گئی اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ شام کے وقت گروپ اسٹڈی کریں گے۔ غلام رسول کی بیٹھک گروپ اسٹڈی کے لیے طے ہوگئی۔ ہر شام ہم یکجا ہو کر اسٹڈی کرتے رہے۔ ابتدا ہی دنوں میں اسٹڈی کی شدت آسمان کو چھو رہی تھی۔ جیسے جیسے سمسٹر گزرتے گئے اس میں نمایاں کمی آتی گئی۔ چند سمسٹر گزرنے کے بعد اس کارواں میں سید امان شامل ہوگیا۔
یہ بیٹھک ہی نہیں بلکہ ہمارا دوسرا گھر ہوا کرتی تھی۔ جیسے ہی یونیورسٹی سے چھٹی کرتے تو ہم گھر میں کچھ دیر گزارنے کے بعد بیٹھک کا رخ کرتے تھے۔ امتحان کے دنوں میں صبح سے لیکر رات تک یہ ہمارا گھر ہوتا تھا، ہم سب مل کر تیاری میں مشغول رہتے۔ اکثر ہم بیٹھک میں رات کے 2 یا 3 بجے تک اسائنمنٹ اور پروجیکٹس کرتے رہے۔
غلام رسول کی سنجیدگی، ساجد غنی کی بے ساختہ مسکراہٹ، مہراللہ جمیل کی سمجھداری، عطاءاللہ کا سادہ دل، اعجاز الحق کی شرارتیں اور مشتاق احمد کا اپنا انداز، یہ سب میری یادوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ سہراب خالق کی بے مقصد ہنسی، برکت کی معنی خیز خاموشی، اویس کریم کی نرم گفتاری، ابوبکر کی ملائم مسکراہٹ اور نوید کا شاعرانہ انداز ہمیشہ یاد رہیں گے۔
شے حق ناصر کی خوش طبعی، چاکر داد کی پُراثر خاموشی، معراج کی ملنساری اور شہزاد طارق کی بےباک باتیں بھی ہماری یادوں کا روشن حصہ بن چکی ہیں۔
اگر لڑکیوں کا ذکر نہ ہو تو زیادتی ہوگی۔ سارہ عبدالغنی کی بے ساختہ باتیں، ماریہ یاسین کی زندہ دلی، گل جان کی نرم مسکراہٹ، شاران اختر کا معصومانہ انداز، ناصرہ کی سنجیدگی، تہمینہ کی معاملہ فہمی، راج بی بی کی ملائم آواز، زورا کی برجستگی اور سمینہ کی پرمعنی خاموشی نے اس سفر کو یادگار اور خوشگوار بنا دیا۔
سر آصف کا مزاحیہ مزاج، سر میر جان کا مسکراہٹ بھرا انداز، سر بیبگر گچکی کا دوستانہ رویّہ، سر امیر بخش کا سخت لہجہ، سر مصدق کا نرم رویّہ اور سر یعقوب کا پرخلوص انداز ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اسی طرح میڈم سمینہ فقیر کی مہربانی، سر سلیم کی سنجیدگی، سر شاکر کی رہنمائی اور سر قیوم کی اصول پسندی بھی دل میں نقش رہے گا۔ یہ تمام اساتذہ ہماری تعلیمی زندگی کے وہ چراغ ہیں جن کی روشنی ہمیشہ ہمارے سفر کو روشن رکھے گی۔
اس سفر میں ایک استاد کا ذکر لازم ہے اور وہ ہیں سر بیبگر صاحب۔ ان کی محبت، شفقت اور دوستانہ مزاج کی کوئی مثال نہیں۔ وہ اپنے آپ میں ایک بےمثال استاد اور انسان ہیں۔ ان کی ہمارے گروپ کے ساتھ قربت بہت خاص اور گہری تھی۔ جب بھی ہم کلاس سے فارغ ہوتے تو سیدھا ان کے دفتر پہنچ جاتے۔ وہاں دیر تک ہنسی مذاق کا ماحول رہتا۔ ان کی محفل سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ ان کا پیار، شفقت اور اپنائیت ہمیشہ یاد رہے گی۔
کلاس میں باتیں کرنے پر سر امیر بخش کی ڈانٹ، سر بیبگر گچکی کی کلاس میں ہمارا ہنسی مذاق اور دیر سے آنے پر سر قیوم کا کلاس میں نہ چھوڑنا، یہ سب اس خوبصورت سفر کی یادیں ہیں۔
جوں ہی سر میر جان اپنا لیکچر مکمل کرتے، کوئی نہ کوئی طالب علم معصومیت سے کہہ اٹھتا: "سر! یہ سمجھ نہیں آیا"۔ پھر سر میر جان کا مسکرا کر اُس طالب علم کی طرف دیکھنا بھی دل چھو لیتا تھا۔
آج بھی یاد ہے کہ جب ہم تین دوست، مہراللہ جمیل، اعجاز الحق اور میں، غلام رسول کی بیٹھک سے امتحان کی تیاری کے بعد گھر کی طرف جا رہے تھے تو راستے میں ایک حادثہ پیش آیا۔
ہم تینوں موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ ایک گاڑی کی لائٹ بہت تیز تھی جس کی وجہ سے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ جیسے ہی وہ گاڑی گزری، ہم نے دیکھا کہ ایک دوسری گاڑی سڑک کے درمیان کھڑی ہے۔ میں نے فوراً بریک لگائی لیکن موٹر سائیکل قابو سے باہر ہوگئی اور ہم سیدھا اس گاڑی کے عین نیچے جا گرے۔
جب میں اٹھا تو دیکھا کہ اعجاز الحق وہاں نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد نظر آیا کہ وہ گاڑی کے نیچے سے نکل رہا ہے۔
مجھے اور مہراللہ جمیل کو معمولی چوٹیں آئیں لیکن اعجاز الحق کو شدید چوٹیں لگیں۔ آج بھی یہ حادثہ ذہن میں تازہ ہے۔
جہاں اساتذہ نے علم بانٹا، وہیں کچھ شخصیات ایسی بھی تھیں جنہوں نے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ ان میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے جان و شان گلاب اور بشارت کا ذکر خاص ہے۔ یہ دونوں محض ملازم نہیں بلکہ کئی بار دل بہلانے والے دوست بن جاتے تھے۔
ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی اگر بشارت کی آواز نہ سنائی دے یا گلاب کی چائے کی خوشبو نہ آئے تو لگتا تھا جیسے کچھ کمی رہ گئی ہو۔ کبھی ان سے ہنسی مذاق تو کبھی ان کی دلچسپ باتوں پر قہقہے، یہ سب لمحے ہماری تعلیمی زندگی کی رنگین تصویروں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو چکے ہیں۔
چونکہ زندگی ایک سفر کی مانند ہے، ہم سب بھی مسافر ہی کی طرح ہیں۔ آج ہمارا جامعہ تربت کا تعلیمی سفر اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ دل خوش بھی ہے اور اداس بھی۔ یہاں بیتائے گئے لمحے مدتوں دل کو اداس رکھیں گے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ہم نے اپنا تعلیمی سفر کامیابی سے مکمل کیا اور ایک سنگِ میل عبور کرلیا۔
کچھ لوگوں کو الوداع کہنا بہت مشکل ہوتا ہے جن کے ساتھ زندگی کے حسین لمحات گزارے ہوں۔ زندگی کو پُرلطف بنانے میں رفقائے سفر کا کلیدی کردار رہتا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ پاک آپ سب کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب و کامران کرے، جہاں بھی جائیں خوش و خرم رہیں۔
آپ کے روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہوں۔
چلو اب گھر چلیں محسن، بہت آوارگی کر لی
وہ سب مکتب کے ساتھی تھے، انہیں آخر بچھڑنا تھا
الوداع میرے پیارے دوستوں!

