Aati Hai Baat Baat Mujhe Baar Baar Yaad
آتی ہے بات بات مجھے بار بار یاد
چار طرف رنگ برنگے پھولوں میں گھری ان خاتون کا نام مریم ہے جن کے اوصاف انہی کی مانند حمیدہ ہیں۔ یہ ہمارے دوستوں میں چنیدہ ہیں، ہمارے رنج اور خوشیوں کا جریدہ ہیں۔ ان کو پڑھنے پڑھانے سے شغل ہے لیکن تصویر پر نہ جایئے، پڑھنا کم اور پڑھانا زیادہ ہے وہ یوں کہ خود فقط فکشن اور شاعری وغیرہ پڑھتی ہیں لیکن سرکار سے لڑکیاں پڑھانے کی تنخواہ پاتی ہیں۔ کبھی شعر بھی کہا کرتی تھیں، پھر یہ کام مشکل جان کر چھوڑ دیا۔ ہمارے خیال میں ٹھیک ہی کیا، سارا دن لڑکیوں سے سر کھپانے کے بعد فکر سخن کیلئے دماغ کہاں سے آئے۔ ابھی انہوں نے قومی الیکشن کروانے کی ذمہ داری لی تھی۔ خود سات دن روتی رہیں اور الیکشن ایسے کروائے کہ ساری قوم اب تک رو رہی ہے۔ الیکشن تو چلو ہوتے رہیں گے، شاعری بہرحال سنجیدہ کام ہے۔
یونیورسٹی میں ہم سے دو چار سال آگے تھیں اور ہمیں تب دل میں جگہ دی جب ہم آوارہ پھرا کرتے تھے یا سارا دن فقط کمرے میں نیند پوری کرنے اور خواب دیکھنے سے کام تھا۔ جب دل میں آتی، ہمیں کان سے پکڑتیں اور ادبی مجلس کے کسی جلسے میں کھینچ کر لے جاتیں کہ بھئی اتنا کچھ پڑھتے ہو، اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی۔ ان جلسوں میں چونکہ مردوخواتین کا تناسب بالترتیب اندک و بسیار تھا اس لیے ہم شرمائے شرمائے رہتے اور جیسے جاتے ویسے ہی اٹھ آتے۔ ان کا مستقل ٹھکانہ چونکہ لاہورہی میں تھا اس لیے کبھی کبھار جب غریب پروری کا جذبہ جوش مارتا تو ہمارے لیے کچھ کھانے کو بھی لے آتیں، لیکن ایسا اکثر نہ ہوا۔
ہاں البتہ یونیورسٹی میں دعوتیں چلا کرتیں، ہم اگرچہ عمر میں کم تھے لیکن انا بہرحال بڑی رکھتے ہیں، چنانچہ خالی جیب کے ساتھ بڑے اعتماد میں بیرے کو آواز دیتے کہ بھئی ذرا بل تو لیجائیو۔ اس کے بعد جیب ٹٹولنے کی کوشش کرتے لیکن یہ چونکہ محرم راز تھیں، اس لیے بل کے آنے سے پہلے پہلے کچھ اندوختہ نکال رکھتیں اور ہمارے نہ نہ کرتے ادا کر دیتیں۔ ایسے ہر موقع پر ہم زبان سے شکوہ اور دل میں شکر کرتے۔ جب تک وہاں رہے، نہ ان کی ادا بدلی نہ ہم نے چلن بدلا۔ اکثر ایسا ہوا کہ دوستوں کی کتابیں انہیں اچھی قیمت پر بیچ دیں اور بقایا بھی نہیں دیا۔ انہوں نے بھی تقاضا نہ کیا۔ خیر اس کا ازالہ اب کر دیتے ہیں۔
آنجناب نے ہمارے برعکس یونیورسٹی میں متحرک زندگی گزاری وہ یوں کہ ان کی پروفیسروں سے اچھی بنتی تھی، خاتون پروفیسر ہو تو زیادہ اور مرد پروفیسروں سے کم کم کیونکہ وہ ان کے نرم اور شوخ لہجے سے جلد گھائل ہو جایا کرتے تھے اور پھر مصیبت ہم پر آتی کہ ہمیں مریم کی زبانی ان کی ہجویں سننا پڑتیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مطعون پروفیسروں کی یہ فہرست طولانی ہوتی گئی اور آخر جب یونیورسٹی کا دورانیہ ختم ہوا تو یہ سلسلہ تھما۔ لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ تب اکثر ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں، اب کبھی کبھار یہ موقع آتا ہے۔
پھر بھی ملتے ہیں تو یہ سب کے سامنے صرف ہماری تعریف کرتی ہیں، اس معاملے میں ہم تو پہلے ہی ان سے متفق ہیں، لیکن یہ باقیوں کو بھی یقین دلا کر دم لیتی ہیں کہ مابدولت ایک عظیم آدمی ہیں۔ ہم بھی ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے جاتے ہیں کہ بڑوں کی بات نہ ماننا اچھی بات نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ صرف منہ پر تعریف نہیں کرتیں، غیبت میں بھی ہمیں ایسے ہی یاد کرتی ہیں۔ نتیجتاً ان کی سہیلیاں بھی ہم سے واقف ہو جاتی ہیں، ہم نے لاکھ کہا ہے کہ بھئی اگر کوئی خوبصورت ہو تو اسے ہم سے رابطہ کرتے ہوئے ہچکچانا نہیں چاہیے لیکن اس معاملے میں ہنوز کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
عقلمندی کی ایک علامت یہ احساس بھی ہے کہ آدمی کو بلاوجہ نصیحت نہیں کرنی چاہیے۔ ویسے بھی دوستوں کو ناصح نہیں چارہ ساز ہونا چاہیے، مریم اس اصول پر کاربند رہتی ہیں۔ آپ انہیں کہیے کہ بھئی ہم کے۔ ٹو چڑھنے جا رہے ہیں۔ یہ آگے سے کہیں گی، اچھا؟ آج کل ٹھنڈ بہت ہے۔ لیکن چلو، خیر سے جاؤ۔ ہم نے جب ان سے کہا کہ شادی کرنے کو ہیں، تو کہنے لگیں کہ ضرور کرو۔ جب کہا کہ اب توڑتے ہیں تو بولیں کہ توڑ دو۔ ان دونوں میں سے کسی بھی موقع پر یہ روکتیں تو ہم بہرحال نہ رکتے۔ ہمارے ساتھ یونیورسٹی میں دو دوست اور تھے۔
الحمدللہ علیٰ ذالک کہ تینوں ایک ایک دفعہ گھر اجاڑ چکے ہیں۔ عقلمند چونکہ دوسروں کے تجربے سے سیکھتا ہے اس لیے انہوں نے ہمارا حال دیکھتے ہوئے یہ غلطی ہنوز نہیں کی۔ فرماتی ہیں کہ جب ایسے اچھے لوگوں سے یہ سلسلہ نہ چلا تو مجھے کونسا فرشتہ مل جائے گا۔ پھر یہ مطالبہ بھی ہے کہ لڑکا خوبصورت ہونا چاہیے۔ ہم نے کہا بھی کہ بھئی جیسی تیز باز آپ کی نظر ہے، آپ عینک اتار دیں تو سب برابر۔ لیکن یہ مصر ہیں کہ شادی عینک پہن کر ہی کریں گی۔ اب بھلا انہیں کون سمجھائے کہ جو عقل کا چشمہ پہنے رکھنے پر بضد ہوں ان کی شادیوں کا وہی انجام ہوتا ہے جو اکثر کہانیاں لکھنے والے گول کر جاتے ہیں۔ خیر ہم بھی زیادہ نہیں سمجھاتے کہ ابھی عمر ہی کیا ہے۔ جب یادداشت ذرا کمزور ہو جائے تو پاؤں میں کلہاڑی مار لیجئے گا۔
مریم کی ایک خوبی یہ سمجھ لیجئے کہ انہیں بھی ہماری طرح یہ پتہ نہیں چلتا کہ کونسی بات کہاں چھپانی ہے اور کہاں بتانی ہے۔ جو دل میں ہو زبان پر آتا چلا جاتا ہے۔ جو باتیں نہ بتانے کی ہوں وہ بھی بتا دیتی ہیں لیکن چلو ہم بھی اچھے دوست ہیں، ان باتوں کو سمجھتے ہیں اور پردہ دل میں چھپا لیتے ہیں۔ آخر ہمارا اچھے برے وقتوں کا ساتھ ہے۔
دوست وہی اچھے ہیں جو بے ساختہ ہوں۔ نہیں یاد کہ مریم سے پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی۔ چھ سات سال تو ہو گئے ہوں گے۔ بس یونہی کہیں ملے اور دو تین سالوں میں پتہ چلا کہ اب ایک تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ مریم نے اب تک اسے خوب نبھایا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری طرح انہیں بھی اس میں کوئی تردد نہیں کرنا پڑا۔ چنانچہ امید ہے کہ آگے بھی نبھتی جائے گی، ہر تعلق میں ایک خاص مدت کے بعد پختگی آ جاتی ہے۔ ہمارا تعلق بھی ان کے ساتھ اب ایسا ہی ہے۔ دعا ہے کہ عمر بھی ان کے دل کی طرح کشادہ ہو اور ہماری تعریف و توصیف کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے کہ اگر دوست نہ کریں گے تو کیا دشمنوں سے امید رکھیں؟