Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Adde, Pa Makha De Sha (1)

Adde, Pa Makha De Sha (1)

اَدّے، پا مخہ دے شہ (1)

کرندی مکڑوال کے بلند بانگ پہاڑوں سے اپنے کچے پکے گھر کیلئے۔ رشتہ دار ہم جولیوں اور گاؤں کی دیگر لڑکیوں کیساتھ "بالنڑ" لیکر آنیوالی مضبوط اعصاب اور چاق و چوبند جسم کی مالک اماں (اَدّے)۔ تقریباً پچاسی نؤے سالہ زندگی کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد گزشتہ دنوں اپنے نحیف و کمزور جسم کے ساتھ قبر میں اُتر کر ﷲ کے حضور پیش ہوگئی۔ منیرنیازی نے کہا تھا

ایڈیاں دَردی اکھاں دے وچ ہنجو بَھرن نہ دیواں

وَس چلے تے ایس جہان وچ کِسے نوں مَرن نہ دیواں

یہ "آپشن" اگر میرے پاس ہوتا تو کم از کم میں اپنی اَدّے (ماں) کو ہرگز مرنے نہ دیتا مگر انسانی کم مائیگی + بیچارگی اور بےبسی کا وحشت ناک احساس، اُس وقت دوچند ہوا جب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم سب، پورا خاندان، دوست احباب اور ڈاکٹرز وغیرہ سر توڑ کوششوں کے باوجود اماں کو نہ بچا سکے اور وہ ہم سب کو زندگی کے اِس دشتِ بے اماں میں چھوڑ کر ایک ایسے ابدی سفر پر روانہ ہوگئی جہاں سے آج تک کوئی بھی واپس نہیں آیا۔

ویسے یہ خیال بھی کتنا دیکھے و اَن دیکھے رنگوں بھرا مگر اذیت ناک ہے کہ وہ لوگ، جن کے بغیر زندگی کا ایک لمحہ بھی کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا موت کے بعد، پھر قیامت ہی کے دن اُن سے ملاقات کی اُمید، ہمارے اِس دکھ اور ابدی جُدائی کیلئے مرہم بننے لگتی ہے۔ پہاڑوں کی گود میں پَلنے والے لوگوں کی طرح، میری اماں بھی انتہائی سیدھی سادی، جفاکش، محنتی اور بہادر خاتون تھیں۔ ہمارے ایک چچا جان کو 302 کے ایک کیس میں جب یہاں سزائے موت ہوئی تو ہمارا سارا خاندان واپس کرندی چلا گیا جبکہ صرف ہمارے والدین نے میانوالی کو اپنا "وطن" بنانے کیلئے محنت و مزدوری شروع کر دی۔

غربت اور غریب الوطنی کے اس سفر میں بلاشبہ سروائیول کیلئے میرے والد مرحوم کا مرکزی کردار تھا۔ تاہم آج میں سمجھتا ہوں کہ اگر میری اَدّے (اماں) اس ہمسفری میں ہمت و حوصلہ ہار دیتی، بھوک اور غربت کے خوف کا سامنا کرنے کی بجائے ڈھیر ہو جاتی تو میرا باپ بھی آخرکار مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، اپنے بھائیوں کی طرح کرندی کے پہاڑوں کی طرف پلٹ جاتا جس کے نتیجہ میں آج میرے اور میری اولاد کے ہاتھوں میں قلم اور لیپ ٹاپ کی بجائے راتوں کو کسی گدھے کی لگامیں (کان کنی و محنت و مزدوری) اور دن کو کلاشنکوف وغیرہ ہوتی۔

الحمدللہ، آج کرندی میں وہ حالات نہیں رہے۔ سڑک، بجلی، تعلیم اور کاروباری سرگرمیوں کے نتیجے میں دولت کی ریل پیل نے سارا منظرنامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ مگر جس زمانے کی بات میں کر رہا ہوں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہاں گدھے و اسلحہ کے بغیر کوئی کِسی کو جینے دیتا۔ پی اے ایف ہسپتال میں ایک رات اماں کی طبعیت کچھ بحال ہوئی تو حوصلہ و اُمید دینے کی غرض سے میں نے کہا۔ انشاءﷲ جونہی آپ اپنے قدموں پر چلنا شروع کریں گی تو ہم سب اکھٹے اپنے وطن، کرندی جائیں گے۔ سارے رشتہ داروں سے ملیں گے، وغیرہ وغیرہ۔

اماں میری یہ باتیں سن کر ایک لمحہ کیلئے چُپ ہوئی اور پھر صرف یہی کہا۔ "اُوس موژا دغا وطن دا" (اب ہمارا یہی یعنی میانوالی ہی وطن ہے)۔ زندگی بھر، اماں نے ہر قدم پر، ہر مشکل میں اباء حضور کا ساتھ دیکر بسترِ مرگ پر ایقان و یقین کی وہ منزل حاصل کر لی تھی جس کا خواب آنکھوں میں سجائے انہیں آخرِ کار اس "دیارِغیر" کو اپنا "وطن" بنا ہی لیا اور یہی ہمیشہ کیلئے آسودہ خاک ہوگئیں۔

(جاری ہے)

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat