Har Fard Hai Millat Ke Muqaddar Ka Sitara
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
علامہ اقبال کا مصرعہ پڑھتے ہی نظر خودبخود ماضی اور حال کے اوراق کو کنگالنا شروع کر دیتی ہے جہاں حکمرانی سے غلامی تک کی ساری داستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ منتظر تھی پھر آزادی کی جدوجہد اور اسکا حصول، ورق بدلتے ہیں مگر کہانی جاری رہتی ہے۔۔ مگر اس سب میں کچھ افراد اپنی انفرادی حیثیت سے اہمیت کے حامل ہیں۔۔ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ایک فرد واحد کا نام ہے جس نے ایک خواب دیکھا اگر وہ یہ خواب نہ دیکھتا تو آزادی کا ستارہ نہ چمکتا۔۔۔ محمد علی جناح ایک فرد واحد کا نام ہے جس کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ اگر وہ نہ ہوتا تو پاکستان کا ہونا ممکنات میں سے نہ ہوتا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔۔ پاکستان نام تجویز کرنے والا نوجوان بھی فرد واحد تھا۔۔۔ پاکستان کے ایک غریب علاقے میں پلنے والا یتیم بچہ جسے ساری دنیا ایدھی کے نام سے جانتی ہے، فرد واحد تھا۔۔۔
اب بھی اگر ہم کہیں کہ ایک شخص سے کیا فرق پڑتا۔۔ بھئی اگر میں کچھ کر بھی لوں تو کیا ہوگا، میں نے اکیلے نے کون سا پہاڑ توڑ لینے۔۔ تو جناب والا جیسے اینٹ سے اینٹ ملتی ہے تو دیوار بنتی ہے اور پھر گھر۔۔ ایسے میں اگر ایک بھی اینٹ درست طریقے سے نہ رکھی جائے تو دیوار کتنی بدصورت اور کمزور ہو جائے گی۔۔ ایسے ہی ہر فرد قوم کے مقدر کا ستارہ ہے۔۔ یہ بجا ہے کہ اقتدار کی جنگ نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جہاں آزادی کی تحریک کھونجے بھی تو سننے والا نہیں ملتا یوں ایک ایسا لولالنگڑا نظام قائم ہے جس نے جسم تو آزاد رہنے دئیے مگر شعور چھین لیا، کان اور آنکھیں تو ہیں مگر صحیح سننے اور بولنے کی صلاحیت نہ رہی۔ پاکستان کے بنکر، کاروباری افراد، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان جن کی قابلیت کا دنیا اعتراف کرتی ہے مگر ہمارے سٹم انہیں نااہل قرار دیتے ہوئے روٹی، کپڑا مکان کی ایسی چکی میں گھماتا ہے جہاں وہ کسی قابل نہیں رہتے۔ کرپشن ہمارے خوابوں نہ صرف گلہ گھونٹ رہی ہے بلکے ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ جب قومی ادارے ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہونے لگ جائیں اور عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم ہو تو وہاں افراد اپنی اہمیت کھونے لگتے ہیں اور ناامیدی گھر کر جاتی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتے ہیں جہاں عام آدمی کو چودہ چودہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود مناسب منافع نہ ملے، مناسب سہولتیں نہ ملیں مگر ٹیکس اور منگائی کی بھرمار ہو۔ دفاتر میں سفارشی طبقہ کام کر رہا ہو تو ایسے میں بہتری کہاں ممکن ہے اور کہاں یہ دو چار آدمیوں کے بس کی بات ہے۔ جب ان مسائل کو حل ادارے نہیں کر سکتے جن کے لیے انہیں تشکیل دیا گیا ہے تو وہاں کچھ بھی کرنا ہم جیسے لوگ کے بس میں کہاں ہے مگر اس طرح چپ چاپ پتا ہی نہیں چلتا اور ہم بھی اس کا حصہ بن جاتے اور یہ سسٹم یوں کا توں چلتا رہتا ہے۔۔۔ ایک نومبر1939ء میں قائدِ اعظم جلسے سے خطاب کررہے تھے کہ آپ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "نوجوان پوچھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی خدمت کس طرح کرسکتے ہیں۔ میرے پیارے نوجوانوں! ہمارا عمل ہادی برحق ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی اصلاح کرلے تو یہ بھی ملک کی خدمت ہوگی۔ کیا ہر فرد کے عمل میں باقاعدگی اور تنظیم ہے؟ کیا ہر شخص مناسب وقت پر سوتا اور بیدار ہوتا ہے؟ کیا ہر شخص ٹریفک اصولوں کا خیال رکھتا ہے؟ اور سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پھینکنے سے اجتناب کرتا ہے؟ کیا ہر ایک اپنا کام دیانت اور ذمہ داری سے کرتا ہے؟ کیا ہر شخص دوسرے کو ضرورت کے وقت اتنی امداد دیتا ہے جتنی وہ دے سکتا ہے؟ کیا ہر ایک برد بار اور متحمل ہے؟ یہ باتیں بظا ہر بے حد معمولی نظر آتی ہیں لیکن انہی میں تنظیم مضمر ہے۔"
قوم ایک مشینری کی مانند ہوتی ہے، اس میں ہر پرزے کی اپنی اہمیت ہے اور اس کی صحیح کارکردگی کا انحصار ان تمام پرزوں پر ہے جو اس میں کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ملک و قوم کا ہر فرد ایک اہم پرزہ ہے جسے اپنی اپنی جگہ پر پورے خلوص ہمت اور احساس سے کام کرنا چاہیے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کی نظر میں فرد واحد کو بہت اہمیت حاصل ہے انہوں نے ہمیشہ انفرادی قوت کو مکمل طور پر بروئے کار لانا کا پیغام دیا۔ بےشک فرد واحد اپنی تمام تر قوتوں کے استعمال کی وجہ سے بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اگر اس کرپٹ سسٹم کو بدل نہیں سکتے تو اس کا حصہ بھی مت بنوں۔ ہم بھی بڑے عجیب لوگ ہیں چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران دیانت دار ہوں مگر خود ہیر پھیر کرنے سے باز نہیں آتے، چاہتے ہیں ہمارے حکمران کرپشن سے پاک ہوں اور خود ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
بحیثیت قوم ہمیں اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے معاملات صحیح کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام کسی حکومت نے نہیں کرنا، ہم نے کرنا ہے۔ اگر ہمیں کرپشن کا صفایا کرنا ہے تو انٹی کرپشن کی گھٹی ہم سب کو پینی ہوگی، ہمیں اپنے معاملات کو صاف شفاف کرنا ہوگا جب تک ہر فرد اپنے حصے کا کردار ادا نہیں کرے گا بہتری ممکن نہیں۔ ہم سب ملک سے تو ہر طرح کی کرپشن اور ہیرا پھیری کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں مگر ہم خود چاہے دودھ سبزی یا سودا سلف بیچنے والے ہوں یا مشینری کا کاروبار کرنے والے یا وکیل ڈاکٹر ہوں ہم ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے، ہم کو جہاں موقع ملتا ہے ہم اس سے فائدہ ضرور اٹهاتے ہیں، جب تک ہم اپنی اس عادت کو نہیں بدلتے، تبدیلی نہیں آ سکتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون نافذ ہو مگر جو قانون بنے ہوئے ہیں ان پر ہم عمل پیرا نہیں ہوتے، ٹریفک کے قانون پر تو ہم کبھی نہیں عمل کرتے شاید ہی ہم میں سے کوئی ہو جو ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوتا ہو، جس وجہ سے آئے دن حادثے ہوتے رہتے ہیں اور ٹریفک بھی عموماً جام رہتا ہے۔ ہر کوئی آگے نکلنے کی دھن میں ہوتا ہے، بےوجہ ہارن بجانا تو ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے اور ذرا سی بات پر ہم گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ ہم عام حالات میں کتنا بھی مہذب بننے کی کوشش کیوں نہ کرتے ہوں مگر یہاں ہمارا مہذب پن جواب دے جاتا ہے۔
ایک طرف تو ہم پاکستان کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف جگہ جگہ کچرا پھیلا کر مزید گندا کرتے ہیں۔ ہم کار میں ہوں یا رکشے میں، یا سائیکل پر اگر ہمارے ہاتھ میں کوئی کاغذ یا ریپر ہے تو ہم اسے ضرور نیچے پھینکیں گے، ہمارے تعلیمی ادارے اور ہسپتال سب سے زیادہ گندے ہوتے ہیں جنہیں سب سے زیادہ صاف ہونا چاہئے۔ افسوس کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ان سرگرمیوں میں خاص طور پرشامل ہے۔ بتائیں کہ یہاں قصور وار کون ہے؟ ہمارے بچوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ پڑھ لکھ کر نوکری کرتے ہیں اور کاروبار ان پڑھوں کے ہاتھ میں ہے ایسے میں تبدیلی کہاں سے آنی ہے۔ پہلے تو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ وہ مسائل جن کو پروان چڑھے ہوئے عرصہ لگا ہے وہ چٹکیوں میں ٹھیک نہیں ہو سکتے ہیں اس میں وقت لگے گا اور کافی وقت لگے گا۔ اور ان تمام مسائل کا سدباب کرنے کےلیے ہمیں انفرادی طور پر اپنے ذمہ داری قبول کرنا ہوگی اور اپنا کام ایمانداری سے کام کرنا ہو گا۔ جب تک ہر ایک فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے انفرادی کوشش نہیں کرے گا تب تک وہ منزل جس کی خاطر یہ ملک حاصل کیا گیا اس کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنتا ہے اسی طرح ہمیں مل کر ایک قوم بنانی ہے اور اس میں دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔