Khushiyan Aur Hamara Rad e Amal
خوشیاں اور ہمارا ردِ عمل

خوشی ہے کیا؟ سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ آج تک اس کی کوئی جامع یا واضح تعریف ممکن نہیں ہو سکی کیونکہ خوشی ہر شخص کے لیے مختلف ہوتی ہے، خوش ہونے یا خوشی کو محسوس کرنے کے لیے کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی اور نہ یہ وجہ سب کے لیے ایک جیسی ہو سکتی ہے پھر یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ خوشی ذہن کی ایک مستقل کیفیت کا نام نہیں ہے یعنی کوئی بھی شخص ہر وقت خوش نہیں رہ سکتا، نہ ہی کوئی ایک بات یا کام اس کے لیے ہر وقت خوشی کا باعث بن سکتا ہے۔
خوشی کا تعلق ہمارے اندر کے احساسات و محسوسات، ہماری سوچ اور عزتِ نفس سے ہوتا ہے۔ ہم اپنی خوشی کا معیار خود بناتے ہیں کچھ لوگوں کے لیے اچھا کھانا، اپنی نیند پوری کرنا، خریداری کرنا، مہنگی چیزیں خریدنا، گھومنا پھرنا، بڑی گاڑی، بڑا گھر خوشیوں کا باعث بنتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے لیے روپیہ، پیسہ دولت، بینک بیلنس اہمیت نہیں رکھتا بلکہ دوستوں، یا اپنے پیاروں کا ساتھ خوشی کا باعث بنتا ہے۔ وہیں کچھ لوگوں کے لیے بڑی بڑی کامیابیاں خوشی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ہماری اپنی سوچ ہوتی ہے کہ ہم کس چیز سے سکون اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس دنیا جہان کی دولت ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ خوش یا پُر سکون نہیں ہوتے کیونکہ وہ کچھ اور ہی چاہ رہے ہوتے ہیں۔
خوشی کا تعلق کسی بڑی کامیابی کے حصول سے نہیں ہوتا دراصل ہم خود کو اپنی سوچ کی وجہ سے محدود کر دیتے ہیں اور پھر ہمیں اپنے اردگرد پھیلی بے شمار چھوٹی چھوٹی خوشیاں نظر ہی نہیں آتی۔ ہم انسانوں کی خواہشات لامحدود ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہم حاصل پر اور موجودہ وقت میں خوش ہونا نظرانداز کر دیتے ہیں اور بڑی اور لاحاصل خوشیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے خود کو ہر وقت پریشان، اداس اور مایوسی کے دلدل میں دھکیلتے جاتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ اکثر پُر آسائش بنگلوں میں رہنے والے بھی خوش نہیں ہوتے جبکہ چھوٹے گھروں، حتٰی کہ جھونپڑیوں کے مکین خوش اور مطمئن ہوتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ دراصل ان کی خواہشیں محدود ہوتی ہیں، وہ مل جل کر اور مل بانٹ کر، پیار و محبت سے رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی نہیں کرتے، اپنا دوسروں سے موازنہ نہیں کرتے، جو حاصل ہوتا ہے اس پر راضی اور شکرگزار ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ خوشی کا انحصار امیری، غریبی میں نہیں ہے بلکہ ہماری ذہنیت اور رویہ میں چھپا ہوتا ہے۔ ایک بچہ پہلی پوزیشن لے کر بھی وہ خوشی محسوس نہیں کرتا جو دوسرا بچہ تیسری پوزیشن یا پاس ہو کر محسوس کرتا ہے کیونکہ ہم سب کے لیے خوشی کا معیار مختلف ہوتا ہے اور ہماری سوچ ہی وہ معیار بناتی ہے۔
مائیکل ایل (گلوکار) نے کہا کہ "یہ آپ کی اپنی مرضی یا فیصلہ ہے کہ آپ خوش رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔۔ کیونکہ لوگ اکثر خود پر بے شمار خواہشوں کا بوجھ لاد لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نا خوش رہتے ہیں اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ ان خواہشوں کی وجہ سے خود کو ناخوش رکھیں یا ان کا بوجھ اتار کر پھینک دیں"۔
یہ ہم نے سوچنا ہے کہ خود پر مسائل حاوی کرکے، یا بڑی خواہشات کے حصول میں ناخوش رہنا ہے یا ہمارے اردگرد جو بے شمار چھوٹی چھوٹی خوشیاں پھیلی ہوئی ہیں، جو عنایتوں اور نعمتوں کی بہار ہے ان کو محسوس کرکے خوش ہونا ہے۔ اختیار تو اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔
کبھی کبھی ہم اپنی خوشیوں کی ڈور دوسروں کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں پھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی دوسرا کیسے ہمیں خوش رکھ سکتا ہے یا اُسے کیوں ہماری خوشیوں یا سکون کی پرواہ ہوگی کیونکہ سب کو صرف اپنی غرض سے مطلب ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی خوشیاں دوسروں میں نہیں بلکہ اپنے اندر تلاش کرنی چاہئیے۔ وہ کام کریں جن سے خوشی مل سکے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم کبھی بھی کسی کا بُرا سوچ کر یا کرکے خوش نہیں رہ سکتے۔ خوش، مطمئن اور پُرسکون رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں سے بھلائی کریں، ان کے کام آئیں، ہمارا چھوٹا سا عمل بھی کسی کو خوشی دینے اور حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔
خوشی کبھی بھی مادی چیزوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک توازن سے قائم ہوتی ہے۔ ہم آسائشوں، خوابوں، سہولیات و ضروریات کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں اور اصل خوشیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ دوستوں کی محفل، ہنسی، قہقہے، زندگی میں رونق بھرتے ہیں لیکن ہم اپنی مصروفیات کی وجہ سے دوستوں کے لیے وقت نکالنا ہی بھول جاتے ہیں۔ بیتے خوبصورت پل، باتیں، یادیں سب خوشیوں سے ہمارا دامن بھر دیتی ہیں۔
جینا بھی ایک کمال ہے اور خوشی سے جینا بہت آسان ہے اگر ہم اپنی زندگی سے افراتفری، مادی چیزوں کے حصول کی خواہش کم کر دیں، اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزاریں، دوسروں سے اپنا موازنہ نہ کریں، دوسروں کی کامیابیوں پر دل کو دکھی نہ کریں بلکہ ان کی خوشی میں دل سے شریک ہوں، اپنے اردگرد کی خوبصورتی کو محسوس کریں، شکر گزاری بڑھا دیں، صبر و تحمل، عجزو انکساری پیدا کریں، حسد کو ختم کریں، بڑی نہیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو محسوس کریں، ان سے لطف اندوز ہوں، دوسروں کے اشاروں پر نہ چلیں بلکہ اپنی زندگی میں خود رنگ بھریں۔
خود کو پہچانیں کہ کس کام سے آپ کو خوشی ملتی ہے جیسے کچھ لوگوں کو ورزش کرکے، موسیقی سُن کر، کچھ کو کتابیں پڑھ کر، لکھ کر، لوگوں سے مل کر یا ان کی مدد کرکے خوشی ملتی ہے اسی طرح کچھ لوگوں کو چھوٹے بچوں کے ساتھ وقت گزار کر خوشی ملتی ہے۔ کیونکہ ہر ایک کا مزاج، سوچ مختلف ہوتی ہے لہذا خود کی تلاش بہت ضروری ہے۔
ہمیں زندگی کو خوشی سے جینا چاہئیے جیسا کہ جینے کا حق ہے نہ کہ پریشان اور اداس رہ کر صرف زندگی کے دن پورے کیے جائیں۔ مسائل، پریشانیاں سب کی زندگی میں ہوتے ہیں یہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں کیونکہ ایسا کوئی نہیں جس کی زندگی پرفیکٹ یا کامل ہو، ہاں مسائل کا حل ضرور تلاش کرنا چاہئیے لیکن ان کو خود پر سوار نہیں کرنا چاہئیے اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہئیے کچھ لوگ گزرے وقت چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا کے بارے میں ہر وقت سوچتے رہتے ہیں اور موجودہ وقت سے لطف اندوز ہونا بھول جاتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ آنے والے وقت سے ڈرتے رہتے ہیں اور حال میں جینا بھول جاتے ہیں۔ اُس چیز کے لیے پریشان ہونا چھوڑ دیں جو ہمارے ہاتھ یا ہمارے بَس میں نہیں ہے۔
بقول رالف والڈو ایمرسن: "سوائے آپ کے اپنے، ایسی کوئی چیز یا شخص نہیں جو آپ کے لیے خوشی کا انتظام کر سکے"۔
والٹ ڈزنی کہتے ہیں کہ "یہ موجودہ وقت ہی آپ کا ہے، آپ کی زندگی ہے لہذا اس میں خوش رہنا سیکھیں"۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو لوگ خود خوش رہتے ہیں وہی لوگ دوسروں کو بھی خوش رکھ سکتے ہیں۔ اداس، پریشان حال، مایوس اور روتے دھوتے لوگ کسی کو بھی اچھے نہیں لگتے اور نہ ہی لوگ ان سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ خوش رہیں اورخوشیاں بانٹنے والے بنیں۔

