Kamyabi Hatmi Nahi Hoti Na He Nakami Hamesha Rehne Wali Hai
کامیابی حتمی نہیں ہوتی نہ ہی ناکامی ہمیشہ رہنے والی ہے

زندگی اور اس کے تجربات ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندگی ایک امتحان ہے اور وہی اس میں کامیاب ہوتا ہے جو اپنی سوچ کو بدلتا رہتا ہے اور عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے محدود وسائل اور ناگزیر حالات میں بھی اپنے لیے راستے تلاش کرتا ہے اور زندگی کو بہتر بنانے کی مسلسل تگ و دو کرتا ہے۔
مسائل اور ناکامیاں زندگی کا حصہ ہیں لیکن اگر ہم ان ناکامیوں کو خود پر سوار کر لیں، ہر لمحہ یہی سوچتے رہیں کہ ہم کچھ ڈھنگ کا نہیں کر سکتے، یا میں کبھی کچھ کر ہی نہیں سکتا تو زندگی وہیں رُک جاتی ہے کیونکہ بقول رالف والڈو ایمرسن: "ہم وہی ہیں جو ہم سارا دن سوچتے ہیں" پھر ہم کیوں نہ اچھا اور بہتر سوچ کر دیکھیں۔ یہ تو ہمارے دین نے بھی کہا ہے کہ ہمیں ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہئیے، جب ہم مثبت سوچتے ہیں تو راہیں کھلتی ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ کو اپنے قابو میں رکھنا چاہئیے۔ ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جو منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور وہ اپنی باتوں سے ہمارے حوصلے بھی پست کر دیتے ہیں۔ اب یہاں ہمارا کام ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو ہمت بڑھانے والے ہوں نہ کہ نقص نکالنے والے، دلوں میں وسوسے ڈالنے والے ہوں۔
دنیا میں ایسا کوئی کامیاب انسان نہیں جو پہلے ناکام نہ ہوا ہو یا اس نے ناکامی کا سامنا نہ کیا ہو لیکن اس شکست کو وہ حتمی نہیں سمجھتے کیونکہ ناکامی ایک تجربہ ہوتی ہے جس سے ہم سیکھتے ہیں۔ یہ ناکامیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کہاں غلط ہیں یا کہاں پر ہم سے غلطی ہوئی ہے اور ہماری کوتاہیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان سے کیسے سیکھتے ہیں اور خود میں اپنے عمل میں، اپنی حکمتِ عملی میں کیسے تبدیلی لے کر آتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہار تب ہوتی ہے جب ہم کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا ان تجربات سے سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
وہ شخص جس نے کبھی غلطی نہیں کی، اس نے کبھی کوئی نئی کوشش نہیں کی۔
ناکامی دراصل کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوتی ہے یعنی ناکامی ہی کامیابی کے دروازے کی کنجی ہوتی ہے۔ اگر ہم ڈر جائیں یا ہمت ہار جائیں تو ہم اپنے مقصد سے ہٹ جائیں گے جو اصل میں ناکامی ہے۔ جب ہم کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں تبھی زندگی اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے لہذٰا ہمیں اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے سمجھداری کا ثبوت دینا چاہئیے اور آگے بڑھنا چاہئیے۔ دراصل جب ہم تجربات کرتے ہیں تبھی ہم میں خود اعتمادی آتی ہے ورنہ ہم ناکامی کے خوف سے صرف سوچ ہی سکتے ہیں، کچھ کر نہیں سکتے۔ ہمیں اپنے مسائل اور ناکامیوں کو چیلنچ سمجھنا چاہئیے اور ان سے ڈرنے یا آنکھیں بند کرنے کی بجائے ان سے نمٹنے کی ترکیب کرنی چاہئیے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "ناکامی صرف ایک تجربہ ہے، ہار نہیں ہے"۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کامیابی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی یعنی اگر ہم آج کامیاب ہو گئے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ہمیشہ کامیاب ہی ہوں گے۔ کامیابی مسلسل محنت کا نام ہے۔ اگر کوئی کرکٹر ہے، وہ ایک میچ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ اچھا ہی کرے گا اس کو اپنی کارکردگی کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل اور پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ اسی طرح اگر کوئی طالب علم محنت کرتا ہے، اچھی اور نمایاں کامیابی حاصل کرتا ہے تو اسے بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا پڑے گی۔ کامیابی کسی کو بھی تھالی میں رکھ کر نہیں ملتی، اس کے لیے نظم و ضبط، مناسب حکمتِ عملی اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس طرح کامیابی حتمی نہیں ہوتی بالکل اسی طرح ناکامی بھی ہمیشہ یا مستقل نہیں ہوتی۔ آج اگر ناکام ہو گئے ہیں تو کوئی بات نہیں اپنی محنت کو دگنا کر دیں، ہدف پر نظر رکھیں، اپنی حکمتِ عملی کو درست کریں اس میں تبدیلیاں لے کر آئیں، غلطیوں سے سیکھیں اور آگے بڑھتے جائیں۔ ہم اپنی محنت اور لگن سے ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔
حالات جیسے بھی ہوں ہمیں ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم میں گِر کر دوبارہ اٹھنے کا حوصلہ ہونا چاہئیے۔ اتنی ہمت ہونی چاہئیے کہ ہم اپنی غلطی کو تسلیم کر سکیں اور اس کو سدھار سکیں اور اگلی دفعہ مزید مضبوط بن کر ابھر سکیں۔ کیونکہ یہ مسائل، ناکامیاں اور تجربات ہماری شخصیت اور کردار کی معمار ہوتی ہیں۔
کامیاب اور ناکام شخص میں فرق صرف ان کی سوچ کا ہوتا ہے لہذا اپنی سوچ پر کام کریں اور مسائل کو دیکھنے کا زاویہ بدل لیں۔ زندگی آسان ہو جائے گی اور منزل بھی قریب نظر آنے لگے گی۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمی بھی ہوتی ہے لیکن اس کمزوری کو خود پر حاوی نہیں کرنا چاہئیے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ کسی کمزوری کا شکار ہوتے ہیں جیسے بینائی نہ ہونا، یا سنائی نہ دینا یا کوئی اور جسمانی تکلیف وہ زیادہ ہمت اور حوصلے والے ہوتے ہیں اور اپنے لیے ایسے راستے تلاش کرتے ہیں جو کوئی نارمل انسان سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم نے اس کمزوری کے ساتھ جینا اور مرنا ہے تو پھر کیوں نہ زندگی اور اس کے رنگوں سے لطف اندوز ہوا جائے، ویسے جیا جائے جیسے جینے کا حق حاصل ہے۔ پھر قدرت بھی انہی لوگوں کی مدد کرتی ہے جو خود اپنے لیے راستے تلاش کرتے ہیں۔ قسمت کا رونا نہیں روتے بلکہ محنت، ہمت اور حوصلے سے اپنی زندگی بدلتے ہیں۔
کامیاب ہونے کے لیے سب سے اہم عناصر صبر، مستقل مزاجی اور مسلسل محنت ہیں۔ ایک اہم بات جو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ پریشانی حالات سے نہیں بلکہ ہماری سوچ سے پیدا ہوتی ہے لہذا اپنی سوچ کو بدل لیں آدھی پریشانی ختم ہو جائے گی۔ جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو اپنا ہی نقصان کرتے ہیں، ہماری سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور ہمیں مسائل کا حل سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتا کیونکہ ہمارا دھیان صرف پریشان ہونے پر ہوتا ہے اس کا حل تلاش کرنے پر نہیں ہوتا۔
کبھی بھی خود کو مجبور و لاچار نہ سمجھیں۔ قدرت نے سب کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ صرف اپنی سوچ پر کام کریں اس کو بدل کر دیکھیں۔ ہر کام کے کرنے کا وقت مقرر کریں۔ یہ نہ سوچیں کہ مناسب وقت آئے گا تو کر لیں گے، کبھی آج کے کام کو کل پر نہ چھوڑیں، جو آج ہو سکتا ہے وہ کل نہیں ہو سکتا۔ ہر کام کی پہلے منصوبہ بندی کریں، حکمتِ عملی تیار کریں، اپنی مہارت یا ہنر پر کام کریں۔ اپنی صلاحیتوں کو بڑھائیں، خود اپنے لیے اہداف کا تعین کریں، اپنے کمفرٹ زون سے باہر آ کر کام کریں، خود پر ترس نہ کھائیں، نہ ہی ناکامی کے ڈر سے بیٹھیں بلکہ بہادر بنیں، حوصلہ رکھیں، ہمت کریں، مسائل کا سامنا کریں، اپنی غلطیوں سے سیکھیں۔ کبھی یہ نہ سوچیں کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب ہم ایسا سوچ لیتے ہیں تو ہم دراصل ہار مان لیتے ہیں اور مقابلہ کیے بغیر ہی اپنی شکست یا ناکامی تسلیم کر لیتے ہیں۔
اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی سوچ کو، اپنے ادا کیے جملوں کو مثبت کر لیں۔ خود پر، اپنی صلاحیتوں پر مکمل بھروسہ رکھیں۔ اگر کوئی کام آج نہیں آتا ہے تو کل وہ آپ سیکھ جائیں گے بس پہلے قدم تک کی دوری ہے۔ ایک پہلا قدم اٹھا لیا تو اعتماد، حوصلہ سب آ جائے گا اور جینے کا طریقہ بھی سمجھ آ جائے گا۔ بس یہی کامیابی کا فلسفہ ہے جو اس کو سمجھ گیا وہ کامیابی کی چوٹیوں کو چھو لے گا لیکن یاد رکھیں کہ زندگی میں کوئی بھی کامیابی یا منزل آخری نہیں ہوتی، یہ تو مسلسل جدوجہد اور آگے سے آگے بڑھنے کا نام ہے۔

