Hasad Aik Fitri Magar Manfi Amal
حسد ایک فطری مگر منفی عمل ہے

حسد ایک منفی عمل ہے جس میں ایک انسان کسی دوسرے انسان کو عطا کی گئی نعمتوں، کامیابیوں، عروج اور خوشیوں کو دیکھ کر نہ صرف نا پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے بلکہ اس کے چھن جانے کی بھی خواہش کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا برا عمل ہے جس کی وجہ سے تمام نیک اعمال تلف ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی حسد کرنے والے سے اچھے اور صالح کام کرنے کی توفیق بھی چھین لیتے ہیں۔
ہمیں حسد کرنے کی بجائے رشک کرنا چاہئیے اور تعریف کرنی چاہئیے کہ کامیاب شخص نے محنت کی اور پروردگار نے اُس کی محنت و ریاضت کا پھل عطا کیا۔ حسد اور رشک میں بہت بڑا اور واضح فرق ہے۔ حسد میں انسان دوسرے کی کامیابی سے جلتا ہے اور چھن جانے کی دعا کرتا ہے جب کہ رشک میں انسان اس نعمت سے متاثر ہو کر اُس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے اور کسی بھی صورت میں اس شخص کے زوال کی خواہش نہیں رکھتا۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: "آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ ہی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ"۔
ایک اور روایت میں ہے کہ "حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے"۔
بعض ماہرین کے مطابق جب ہم حسد کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں خود کو پہنچتا ہے کیونکہ جب ہم کسی کا برا سوچتے ہیں تو اس کے منفی اثرات ہماری ذہنی و جسمانی صحت پر پڑتے ہیں اور نتیجے میں سوچتے رہنے اور کڑھنے کی وجہ سے سر درد رہتا ہے، بے وجہ اداسی و مایوسی چھائی رہتی ہے، جسم بوجھل ہو جاتا ہے، اعصابی تناؤ بڑھ جاتا ہے جس سے کئی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ حسد آسودگی، خوشی، اطمینان سب کھا جاتا ہے۔ جب کوئی حسد کی آگ میں جلتا ہے تو وہ تمام مثبت چیزوں کو، نعمتوں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس عمل سے باہمی تعلقات بھی خراب ہوجاتے ہیں میل ملاپ ختم ہو جاتا ہے، ایسے لوگ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ان کا ذہنی سکون برباد ہوجاتا ہے۔
ہمیں حسد سے بچنا چاہئیے اور دوسروں کی کامیابیوں سے ترغیب لینی چاہئیے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور انھیں زندگی میں تگ و دو نہیں کرنا پڑتی لیکن زیادہ تر لوگ محنتی ہوتے ہیں اور انھیں اپنی زندگی کو گزارنے اور بہتر بنانے کے لیے دن رات محنت کرنی پڑتی ہے۔
دراصل ہمیں لوگوں کی کامیابیاں تو نظر آتی ہیں لیکن اُس کامیابی کے پیچھے محنت، ناکامیاں اورماہ سال کی ریاضت نظر نہیں آتی۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی تکلیف تو نظر آتی ہے لیکن دوسروں کے حصے کے دکھ نظر نہیں آتے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
حسد کرو گے تو کچھ نہ پاؤ گے
شکر کرو گے تو گِن نہ پاؤ گے
ہمیں عطا کردہ نعمتوں کا شکر کرنا چاہئیے اور ہرگز خود کو حسد کی آگ میں نہیں جلانا چاہیئے۔ جب ہم دل بڑا کرکے دوسروں کے کام کی تعریف کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہمارے لوگوں سے تعلقات بہتر ہوتے ہیں بلکہ ہماری اپنی ذہنی و جسمانی نشونما بھی ہوتی ہے، دلی اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے، اللہ تعالٰی کا قرب حاصل ہوتا ہے کیونکہ حسد ایک ناپسندیدہ عمل ہے اور ہمیں ہمارے دین نے اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
مالکِ کائنات نے ہم سب کو منفرد تخلیق کیا ہے اور مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ہر ایک کے سوچنے، سمجھنے، بولنے، مسائل سے نمٹنے کی طاقت بھی مختلف ہے حتیٰ کہ کام کرنے کا انداز، قوتِ برداشت اور محنت کرنے کا طریقہ کار بھی الگ ہے تو پھر نتائج بھی مختلف ہی آتے ہیں لہذا کسی کی کامیابی یا عروج سے حسد کسی صورت نہیں کرنا چاہئیے۔ بلکہ اپنے حاصل نتائج پر خوش اور مطمئن ہونا چاہئیے اور مزید محنت کرنی چاہئیے تاکہ بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔ کہتے ہیں کہ جو کچھ نہیں کر سکتے وہ حسد کرتے ہیں۔
واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ: "دوسرے انسانوں کے نصیب سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئیے جو زرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے"۔
دینے والی بھی وہی ذات ہے اور لینے والی بھی وہی ذات ہے لہذا ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہئیے، محنت سے جی نہیں چرانا چاہئیے، لوگوں کی کامیابیوں پر حسد نہیں پالنا چاہئیے بلکہ ان کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنا چاہئیے تاکہ آگے بڑھنے کی تحریک مل سکے۔ اپنی زندگی میں شکر گزاری بڑھا دیں اور پُرامید رہیں، اپنے زورِ بازو پر یقین رکھیں، کسی کا بُرا نہ چاہیں۔ ہماری سوچ ہی ہمیں بناتی اور سنوارتی ہے لہذا اس کو مثبت رکھیں اور آگے بڑھتے جائیں۔

