Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Hassan
  4. Babusar Top, Qayamat Se Pehle Qayamat

Babusar Top, Qayamat Se Pehle Qayamat

بابو سر ٹاپ، قیامت سے پہلے قیامت

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات بے پناہ قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہیں۔ آسمان سے باتیں کرتی برف سے ڈھکی پہاڑی چوٹیاں، چاروں طرف سبزہ، آبشاریں، جھیلیں، جھرنے، وادیاں خطرناک راستے ہونے کے باوجود سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بنتی ہیں اور ان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔

موسمی صورتحال کا جائزہ لیے بغیر ان علاقوں کا رُخ نہیں کیا جاسکتا۔ شمالی علاقوں کی طرف جانے کا بھی ایک خاص وقت ہوتا ہے جو وہاں کے موسم کے مطابق متعین کیا جاتا ہے خاص طور پر برسات کے دنوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ میدانی علاقوں میں جب سردیاں آتی ہیں تو پہاڑوں پر برف پڑتی ہے تب بھی لینڈسلائیڈنگ بڑھ جاتی ہے اور راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ یہ علاقے پہاڑوں کے دامن میں ہیں، پہاڑوں کو چیر کر سڑکیں بنائی گئی ہیں، پھر گزر گاہ بہت چھوٹی ہوتی ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو جاتی ہیں اور اگر راستے بند ہو جائیں تو مشینری نہیں پہنچ سکتی اور بے بسی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہاں کے مقامی لوگ بھی بالاکوٹ سائیڈ پر نیچے کی جانب رُخ کر لیتے ہیں۔

اس رواں سال میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں تباہی دیکھی جا سکتی ہے لیکن ہم ہوش کے ناخن نہیں لے رہے۔ سانحے پر سانحہ ہو رہا ہے لیکن پھر بھی لوگ انہی علاقوں کی طرف رُخ کر رہے ہیں۔

شمالی علاقہ جات میں بارشیں، میدانی علاقوں کی طرح نہیں ہوتیں۔ تصویروں، وڈیوز میں سننے اور دیکھنے میں بہت دلکش نظارہ لگتا ہے، دل مچلتا ہے کہ ہم بھی ان جنت نظیر وادیوں میں گھومیں، ٹھنڈی اور صاف فضا میں سانس لیں۔ جہاں ایک طرف دھوپ ہوتی ہے تو دوسری طرف کالے بادل ہوتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ وہاں بارش یا برف باری ہو رہی ہے۔ بے شک نظارہ دل موہ لینے والا ہوتا ہے کہ بے اختیار سبحان اللہ کا ورد جاری ہو جاتا ہے۔

دعائیں کی جاتی ہیں کہ بابو سر ٹاپ پر برف باری ملے اور ہم اس سے لطف اندوز ہو سکیں لیکن وہیں ہم ان علاقوں میں خطرناک سڑکوں اور دریاؤں، ندی نالوں میں طغیانی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ کب لینڈ سلائیڈنگ ہو جائے، کب گلیشئیر گر جائے، کب بادل پھٹ جائے اور سیلاب کی صورتحال اختیار کر جائے۔ بڑے پہاڑ، نوکیلی چٹانیں، چھوٹے بڑے پتھر سب منہ زور پانی اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے اور یہ سب ایک لمحے میں ہوتا ہے کہ انسان کو کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا، ایسے میں بلند و بالا پہاڑوں اور دوسری طرف کھائیوں پھر برائے نام سڑک اور ان پر گاڑیوں، جیپوں اور بسوں کا اژدھام، ایک ذرا سی لغزش، ایسے میں جائیں تو جائیں کہاں۔۔ موت سنبھلنے کی مہلت نہیں دیتی۔

تفریحی سفر جو خوشی، قہقہوں، امنگوں، امیدوں، اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنے اور یادیں بنانے کے خیال سے شروع ہوتا ہے کون جانتا ہے کہ کب کہاں اور کیسے وہ ایڈونچر کسی سانحے میں تبدیل ہو جائے گا، ایسا تو کوئی بھی نہیں چاہتا نہ ہی کوئی سوچتا ہے۔ اس میں قصور کسی کا نہیں ہوتا۔ بس موسم کے تیور دیکھنے چاہئیے پھر کچھ احتیاطی تدابیر ہوتی ہیں جو کسی بھی مقام کے سفر سے پہلے ہمیں اپنانی ہوتی ہیں۔

جب بھی کسی مقام کی طرف سفر کا ارادہ کریں تو سب سے پہلے وہاں کے موسمی حالات کا جائزہ لیں۔ شمالی علاقوں کا مون سون میں کبھی رُخ نہ کریں۔

مکمل تحقیق کریں کسی کی باتوں، وڈیوز یا ویلاگز اور ٹریول ایجنٹس پر انحصار نہ کریں۔ خود معلومات اکٹھی کریں، وہاں کے مقامی لوگوں سے بات کریں اور کسی ایک سے نہیں مختلف لوگوں سے معلومات لیں کیونکہ ہر ایک کے دیکھنےا ور سوچنے کا زاویہ مختلف ہوتا ہے۔ اگر کوئی صحیح موسم میں گیا ہے تو سب ٹھیک ہی رہا ہوگا اس پر کسی بھی قسم کی قیامت نہیں گزری ہوگی۔ جہاں آج کل سوشل میڈیا کو معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے وہیں غیر تحقیق شدہ خبریں زیادہ گردش کرتی ہیں لہذا کبھی بھی ایک خبر، بندے یا ذریعہ پر اعتبار نہ کریں۔

شمالی علاقہ جات میں کسی بھی موبائل کمپنی کا نیٹ ورک کام نہیں کرتا حتٰی کہ وہاں کی مقامی سم بھی کام نہیں کرتی لہذا کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں ہو پاتا۔ مقامی لوگوں کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے، کسی بھی قسم کی امداد پہنچنے میں وقت لگتا ہے جب راستے بند ہو جائیں، پل ٹوٹ جائیں تو زمینی مدد نہیں پہنچ پاتی۔ عام لوگوں کے لیے فوراً فوجی دستے، ہیلی کاپٹر نہیں پہنچ پاتے۔ لوگ صرف دیکھ سکتے ہیں یا کیمرے کی آنکھ میں قید کر سکتے ہیں لیکن مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس وسائل نہیں، تربیت کا فقدان ہے اور پھر سیلابی ریلے کے سامنے سب بے بس ہو جاتے ہیں۔

یہ کہنا کہ جہاں اور جیسے موت لکھی ہے آ کر رہے گی بالکل درست ہے لیکن اللہ تعالی نے ہمیں عقل و شعور عطا کیا ہے تاکہ ہم اسے استعمال کر سکیں، مناسب وقت پر درست فیصلہ کر سکیں، حالات و واقعات کی جانچ پڑتال کر سکیں کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔

آج کے ٹیکنالوجی کے اس دور میں معلومات حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ کسی بھی سفر سے پہلے مکمل منصوبہ بندی کریں۔ سوشل میڈیا کی ہر بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا لیکن نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا، جب ہر طرف شور ہے، خبریں ہیں کہ سیلابی صورتحال ہے، کہیں برفانی تودہ گر رہا ہے، لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، وہیں راستے خراب ہیں۔ چیخ چیخ کر بتایا جا رہا ہے کہ بارشوں میں سیاح سفر نہ کریں۔ شمالی علاقہ جات محفوظ نہیں ہیں، وہیں پڑھے لکھے لوگ پورے کے پورے خاندان سمیت کیسے ان علاقوں کا رُخ کر سکتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

خدارا حالات پر نظر رکھیں، لمحہ بھر کے لیے سوچیں کہ تفریح کرنا زیادہ ضروری ہے یا اپنی جان کی حفاظت کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ جائیں گھومنے اور واپس نہ آ سکیں، گھر والوں کو لاش ہی نہ ملے، خود کو اور اپنے خاندان کو اس اذیت میں نہ ڈالیں۔ خود کو اور اپنے پیاروں کو موت کو گلے لگاتے ہوئے اور لوگوں کو بے بسی سے وڈیوز بناتے ہوئے دیکھنا کسی قیامت سے کم نہیں۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔

حکومت کو چاہئیے کہ اپنے مستند اداروں کے ویریفائیڈ سوشل میڈیا پیجز اور ویب سائیٹس بنائیں جہاں سے تصدیق شدہ معلومات حاصل کی جا سکیں۔ لوگوں کو موسمی حالات سے آگاہی مل سکے، اگر کسی مشکل میں پھنس گئے ہیں تو اس سے نکلنے اور ان لوگوں کو جو موبائل پر وڈیوز بنا رہے ہوتے ہیں ان کو ہدایات اور تربیت دی جائے کہ کیسے سیاحوں کو اس وقت مشکل سے نکالا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ سیاحوں کو راستوں کے خطرناک ہونے، لینڈ سلائیڈنگ والے علاقوں کا بتایا جائے۔

ٹیلی کمیونیکیشن کو فعال اور بہتر بنایا جائے تاکہ رابطے منقطع نہ ہوں اور مدد کے لیے دیے گئے نمبروں پر بروقت کال کی جا سکے۔ خطرناک علاقوں میں پولیس چوکیاں ہوں جو لوگوں کو معلومات دے سکیں اور رہنمائی کر سکیں۔ چیک اینڈ بیلنس رکھیں مون سون اور لینڈ سلائیڈنگ کے دنوں میں سیاحوں کا داخلہ بند کردیں۔ ایسے یوٹیوبرز جو صرف اپنا کام چلانے کے لیے لوگوں کو غلط معلومات فراہم کرتے ہیں ان کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ کوئی بھی غیر تحقیق شدہ، سنسنی خیز خبر نہ پھیلے۔ ٹریول ایجنٹس کو تاکید کی جائے کہ وہ بارشوں کے موسم میں شمالی علاقہ جات کا سفر نہ رکھیں اور لوگوں کی قیمتی جانوں سے نہ کھیلیں۔ جان بھی جاتی ہے ساتھ میں گاڑی اور باقی مالی نقصان بھی ہوتا ہے آج کل گاڑی خریدنا کونسا آسان ہے لہذا اپنے کاروبار کے لیے لوگوں کا جانی و مالی نقصان نہ کریں۔

اداروں کو چاہئیے کہ ان علاقوں جہاں پر لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہے وہاں پر مشینری پہلے سے موجود ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو فوراً نکالا جا سکے اور جانی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اگر مناسب اور محفوظ اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دنوں میں سیاحت ختم یا کم ہونے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ جس طرح سے اس رواں سال میں جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں اور خاندانوں کے خاندان لمحہ بھر میں لقمئہ اجل بنے ہیں، اس نے ثابت کر دیا ہے کہ قیامت سے پہلے قیامت کیا ہوتی ہے ایسے میں سیاح کبھی اُن آفت زدہ علاقوں کا رُخ نہیں کریں گے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali