Aisa Koi Masla Nahi Jis Ka Koi Hal Mojood Na Ho
ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا کوئی حل موجود نہ ہو

کامل ہونا کیا ہے، کامیابی کیا ہے؟ اِن کی کوئی جامع اور مستند تعریف موجود نہیں ہے۔ کوئی بھی انسان مکمل طور پر کامل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں اور ان سے سیکھتے ہیں اسی طرح کوئی بھی شخص ہمیشہ ناکام نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر انسان کچھ نہ کچھ کرتا ہے، پہلا قدم اٹھاتا ہے، جدوجہد کرتا ہے اور اپنے کام کو بہترین طور پر کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرتا ہے۔ بس یہی کامیابی ہے۔
مسائل کا سامنا کس کو نہیں ہوتا ہاں ان کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ پھر ان مسائل کو دیکھنے اور حل کرنے کا انداز جدا ہوتا ہے کیونکہ سب کی سوچ منفرد ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ہر وقت مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں حتٰی کہ آنے والی مشکلات کے اندیشوں کو اپنے دل و دماغ میں پالتے رہتے ہیں اور آخرکار خود کو ذہنی مریض بنا لیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے، جیسی سوچیں انسان کو ہر لمحہ گھیرے رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کچھ کرنے سے پہلے ہی خوف کا شکار ہو جاتے ہیں اور چھوٹی سی بات بھی رائی کا پہاڑ معلوم ہوتی ہے۔
دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں جو ناممکن ہو یا ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا کوئی حل موجود نہ ہو، یہ سب ہماری سوچ اور دیکھنے کے زاویے پر منحصر ہے، ایک سوچ، ایک خیال آنے کی دیر ہے اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ خود کو مشکل سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کچھ اقدامات کریں تاکہ ہم خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کر سکیں کیونکہ تبدیلی رونما ہونے اور اس کو عادت بننے میں وقت لگتا ہے۔
سب سے اہم کام جو ہم کر سکتے ہیں وہ خود میں مثبت تبدیلی لانا ہے اس کے لیے ہمیں ہمیشہ اپنی سوچ کو مثبت رکھنا چاہئیے اور مسئلے کے ہر پہلو پر غور کرنا چاہئیے۔ جب ہم سکون و اطمینان سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنے حواسوں کو قابو میں رکھتے ہیں تو کئی بڑے بڑے مسائل کا بہت آسانی سے مقابلہ کر پاتے ہیں اور وہ ہمیں ذہنی و جسمانی طور پر نقصان نہیں پہنچا پاتے۔ اس کے علاوہ پُر سکون دماغ اور جذبات پر قابو ہونے اور مثبت سوچ کی بدولت کئی نئی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور ہمیں متبادل راستے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، ہمارے لیے نئے روشن امکانات پیدا ہوتے ہیں علاوہ ازیں نئے مواقع کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس منفی سوچ ہمیشہ منفی نتائج ہی پیدا کرے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ہم وہی ہیں جیسی ہماری سوچ ہوتی ہے۔
دوسری بات جو اہم ہے وہ یہ کہ ہمیں ثابت قدم رہنا چاہئیے۔ جو ٹھان لیا ہے اس پر ڈٹ جائیں پھر آندھی آئے یا طوفان، آپ کو ہلا نہ سکے ہاں وقت اور حالات کے مطابق حکمتِ عملی میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ بند دروازے بھی محنت و لگن اور مستقل مزاجی کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ جب ہم مثبت سوچ کے ساتھ حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہیں، پھر مسئلہ جیسا بھی ہو کوئی نہ کوئی مناسب حل سامنے آہی جاتا ہے۔ دراصل ہم بوکھلاہٹ میں درست سمت میں سوچ نہیں پاتے اور پریشانی کو خود پر حاوی کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر کامیابی کے بہت قریب آ کر ناامید ہو کر واپس پلٹ جاتے ہیں یا ارادہ ہی ترک کر دیتے ہیں حالانکہ اس مقام سے آگے کامیابی لکھی ہوتی ہے۔
حالات جیسے بھی ہوں ہمیں کبھی بھی ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئیے کیونکہ امید ہی زندگی ہے یاد رکھیں کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا کوئی حل موجود نہ ہو۔ جب ہم ہمت ہار دیتے ہیں تبھی آگے بڑھنے کی چاہت ختم ہو جا تی ہے۔ ایک ننھا سا دیا ہی روشنی بکھیرنے کے لیے کافی ہوتا ہے لہذا اپنی سوچ کو اپنے اختیار میں رکھیں اور پُرامید رہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: "جو کچھ بھی نقصان تمھیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمھیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ، اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں"۔
جب حالات نامُوافِق ہوں، ہمت ٹوٹ جائے تب ہمیں مختصر وقفہ لے لینا چاہئیے، ٹھہر جانا چاہئیے تاکہ تازہ دم ہو کر حالات و واقعات کا جائزہ لے کر نئے سرے سے حکمتِ عملی تیار کر سکیں۔ ذہنی سکون کے ساتھ مسائل کو بہتر اور عمدہ انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔
جب انسان کسی قسم کے نقصان سے دو چار ہوتا ہے تو قرآن اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے انسان کو آگاہ کرتا ہے کہ "اللہ کی جانب سے آزمائش کے طور پر تم کو جان میں، مال میں، پھلوں وغیرہ میں کچھ نقصان پہنچیں گے ضرور لیکن صبر کرنے والوں کے لیے بڑی خوشخبری ہے"۔
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ وہ حاصل نہیں کر پاتے جو آپ چاہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کا مقصد یا ہدف واضح نہیں ہوتا اور آپ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اُس طرح کی محنت نہیں کر پاتے جس طرح کرنی چاہئیے ہوتی ہے یا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں دے پاتے کیونکہ آپ نے خود کو کہیں اور الجھایا ہوتا ہے یا کئی محاذوں پر تنہا لڑنے کی وجہ سے آپ کا خواب نظرانداز ہو رہا ہوتا ہے یا آپ جان بوجھ کر پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر خواب کچھ نہ کچھ قربانی مانگتا ہے۔
اس حقیقت سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ مقصدِ زندگی ہمیں زندہ رکھتا ہے پھر اس کے سامنے تمام پریشانیاں، مصائب، تکالیف معمولی محسوس ہوتی ہیں۔
وکٹر فرینکل نے اپنی زندگی کے تجربات و تحقیق سے یہ یہی نتیجہ اخذ کیا کہ جن لوگوں کا مقصدِ زندگی واضح ہوتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے اور اُس کے لیے وہ ہر قسم کے حالات سے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی لوگ آج تک کامیاب ہوئے ہیں ان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد تھا یا خواب تھے جن کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نئی راہیں تلاش کی۔
ہماری ہر مشکل کا حل ہماری سوچ میں پنہا ہے۔ اگر ہم سوچیں کہ یہ کام ہو سکتا ہے تو ہم کر گزریں گے اسی طرح اگر مسائل سے گھبرا جائیں تو کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ہر کام محنت مانگتا ہے اور محنت کے بغیر ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے لہذا سب سے پہلے اپنی سوچ پر کام کریں پھر ہمت پکڑیں، اپنے اعصاب کو مضبوط رکھیں۔ پریشانیاں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں یہی زندگی کا نظام ہے۔ بس خود کو منفی، مایوس کن سوچوں کے حصار سے باہر نکالیں۔ اپنے آپ کو اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں، صحیح وقت آنے کے انتظار میں نہ بیٹھیے رہیں، کر گزریں، اپنی کی گئی غلطی کو نہ دہرائیں بلکہ تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں۔ اِسی میں کامیابی کا راز ہے۔

