Overseas Medical College Dakhla Quota
اوورسیز میڈیکل کالج داخلہ کوٹہ
پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا سہارا سمندر پار پاکستانی ہیں، جو ہر سال اربوں ڈالر زرمبادلہ کی شکل میں ملک بھیجتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگیاں پردیس میں سخت محنت کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں تاکہ ان کے خاندان اور ملک ترقی کر سکیں۔ مگر افسوس کہ حکومتوں نے ہمیشہ انہیں صرف نعرے اور زبانی خراجِ تحسین پیش کیا، جبکہ عملی طور پر سہولتوں کے بجائے مزید مشکلات ہی دیں۔
آج بھی سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں ایک اور زیادتی کا اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ اوورسیز والدین، جو خود بیرون ملک رہتے ہیں لیکن ان کے بچے پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہیں میڈیکل کالجوں کے داخلوں میں مخصوص کوٹے سے محروم کر دیا گیا ہے۔
میں بھی ایک ایسا ہی سمندر پار پاکستانی والد ہوں، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے دیارِ غیر میں سخت محنت کر رہا ہے۔ میری طرح لاکھوں ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں کی خاطر وطن سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔ ہم میں سے اکثر اکیلے زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی کمائی کا بڑا حصہ پاکستان بھیجتے ہیں تاکہ ہمارے خاندان کی ضروریات پوری ہوں اور ملکی معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈال سکیں۔
ہمیں نہ تو پاکستان میں کوئی خاص سہولت حاصل ہے اور جو معمولی مراعات تھیں، وہ بھی ایک ایک کرکے چھینی جا رہی ہیں۔ ایک طرف ہم ہر ممکن طریقے سے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے بچوں کو ان کے بنیادی تعلیمی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
زیادتی کی بنیاد کس نے رکھی؟ سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی فہرست طویل ہے، لیکن حالیہ برسوں میں جو ناانصافی ہوئی، وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ ایک سابقہ سربراہ حکومت، جو سمندر پار پاکستانیوں سے محبت کے زبانی دعوے تو بہت کرتا تھا، لیکن عملاً اس کی حکومت سمندر پاروں کے لئے سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی حکومت ثابت ہوئی، اس نے کئی ایسے اقدامات کیے جن سے اوورسیز پاکستانیوں کو مشکلات میں دھکیلا گیا۔
اسی حکومت کے دور سے ہمارے موبائل ایئرپورٹ پر اترے ہی بند ہونا شروع ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں۔ بھاری ٹیکس عائد کرکے ہمیں اپنے ہی خاندان کے لیے تحفے کے طور پر موبائل لانے سے بھی محروم کر دیا گیا۔ لیکن اس سے بھی بڑا ظلم یہ کیا کہ اس نے سمندر پار اکیلے یعنی بغیر فیملی کے رہنے والے پاکستانی والدین کے بچوں کے لیے مخصوص میڈیکل کالج داخلہ کوٹہ ختم کرنے کی بنیاد بھی رکھی۔ جو 2023 کے عبوری دور میں عملی صورت اختیار کر گئی یعنی یہ کوٹہ بغیر فیملی سمندر پار رہنے والوں کے لئے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ اوورسیز مخصوص میڈیکل کوٹے کی بندش ایک کھلا ظلم ہے۔
پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں اوورسیز پاکستانی والدین کے بچوں کے لیے مخصوص کوٹہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا تھا۔ اس کوٹے کا مقصد یہ تھا کہ جو والدین بیرون ملک کام کر رہے ہیں، ان کے بچے وطن میں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ مگر 2023 میں اس کوٹے کو صرف ان بچوں کے حق میں کر دیا گیا جو والدین کے ساتھ بیرون ملک رہ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہیں والدین کی سرپرستی بھی حاصل ہے، بہتر تعلیمی ماحول اور سہولیات بھی حاصل ہیں، ان کے والدین کی مالی حالت بھی بہتر ہے اور مخصوص کوٹہ بھی انہی کو حاصل ہوگیا جو کل سمندر پاکستانیوں کا پانچ فیصد بھی نہیں اور اپنی آمدن کا بڑا حصہ سمندر پار ہی خرچ کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد کو بغیر سوچے سمجھے اس سہولت سے محروم کر دیا گیا۔
یہ ایک انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ ہے، کیونکہ بغیر فیملی اوورسیز پاکستانی والدین کے بچوں کو یکدم ان کے میڈیکل کالجز داخلہ کوٹہ کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ مزید زیادتی یہ ہوئی کہ یہ فیصلہ صرف پنجاب میں لاگو کیا گیا، جبکہ سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بغیر فیملی اوورسیز والدین کے بچوں کے لیے میڈیکل کوٹہ بدستور موجود ہے۔
موجودہ حکومت کی بے حسی ملاحظہ ہو کہ میں نے اکتوبر 2024 میں موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ کو ایک خط لکھ کر اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ یہ خط وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں وصول بھی کیا گیا اور مجھے باقاعدہ فون کرکے اطلاع دی گئی اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اس پر کارروائی کی جائے گی۔ لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا گیا۔ میں نے پچھلے مہینے دوبارہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کو فون کرکے یاد دہانی کروائی، مگر ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر ایک جائز حق کے لیے درخواست دی جائے اور حکومت اس پر سنجیدگی سے غور نہ کرے تو یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ عام شہریوں کے مسائل ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔
میں اس معاملے پر سابق وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف صاحب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی بیٹی اور موجودہ وزیر اعلیٰ کے برعکس ایک دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ ان سے انتہائی دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ اس ناانصافی کا نوٹس لیں اور پنجاب میں اوورسیز پاکستانی والدین کے بچوں کا میڈیکل کوٹہ فوری طور پر بحال کروائیں۔ میڈیکل داخلے ابھی تک مکمل نہیں ہوئے، چل رہے ہیں اور محروم سمندر پاروں کے بچوں کو ان حق اب بھی دیا جا سکتا ہے۔ جو ان کے والدین کی ملک کے لئے قربانی کا بہت معمولی سا صلہ ہے۔
یہ صرف ایک تعلیمی پالیسی کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہزاروں بچوں کے مستقبل اور ان کے والدین کی سالوں کی قربانیوں کا معاملہ ہے۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو سمندر پار پاکستانی خود کو مزید بے یار و مددگار محسوس کریں گے اور وہ دن دور نہیں جب وہ ملک کے لیے اپنی قربانیاں دینے سے بھی گریز کریں گے۔
یہ ظلم فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور اوورسیز بغیر فیملی رہنے والے پاکستانی والدین کے بچوں کو ان کا جائز حق واپس ملنا چاہیے!
میں اپنے قارئین سے بھی گزارش کرتا ہوں، چاہے وہ پاکستان میں ہیں یا سمندر پار کہ اس آواز کو مضبوط کریں تاکہ اس مسئلے کو منطقی حل تک پہنچانے میں آسانی ہو۔
میں ڈیلی اردو کالم لکھنے والے اپنے تمام کالم نگار دوستوں اور نصرت جاوید صاحب، جاوید چودھری صاحب، وسعت اللہ خان صاحب، ذوالفقار احمد چیمہ صاحب، عرفان صدیقی صاحب، راؤ منظر حیات صاحب، رؤف کلاسرہ صاحب، جیسے اپنے اساتذہ کرام، جن کے خوبصورت، پر مغز اور پر اثر کالموں کا میں پچھلے کئی عشروں سے باقاعدہ قاری ہوں، سے خاص طور پر گزارش کروں گا کہ وہ اس ظلم کے خلاف کم از کم ایک کالم لکھ کر اور اپنے ٹی وی شوز میں ہماری آواز بن کر اس ظلم کا سدباب کرنے میں ہمارے مددگار بنیں۔ میں آپ سب کا تہ دل سے شکر گزار رہوں گا اگر آپ ہم اکیلے سمندر پاروں کی آواز کو مضبوط بنا سکیں کہ ہمارے بچوں کو ان کا چھینا گیا حق پھر سے مل سکے۔ اللہ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔