Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Pakistani Nizam e Taleem Aur Siasat

Pakistani Nizam e Taleem Aur Siasat

پاکستانی نظام تعلیم اور سیاست

پاکستان میں زیادہ تر افراد کے پاس تیار جوابات موجود ہوتے ہیں آج کل کے دور میں کسی بھی عام آدمی یا طالب علم کے ساتھ بیٹھ کر کسی بھی موضوع پر بات شروع کریں تو وہ بندہ آپ کو جواب دیتا ہے بلکہ پوری بات سنے بغیر وہ کہتا ہے کہ میرے پاس آپ کے سوال کا جواب ہے میں سب کچھ جانتا ہوں وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام بہت کمزور ہے ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں ایک کروڑ چار لاکھ بچے موجود ہیں۔

اس میں 57 ستاون لاکھ بچے سکول جاتے ہیں مطلب پڑھ رہے ہیں اور باقی بچے غیر تعلیم یافتہ ہے سکول نہیں جاتے تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ جو تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بھی براۓ نام تعلیم حاصل کررہے ہیں کیونکہ پاکستان میں بچوں کو جواب سکھایا جاتا ہے۔ سوال کیا ہے اور سوال کیسے کرنا ہے؟ سوال کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اساتذہ بچوں کو نہیں پڑھاتا۔ اسی وجہ سے بچوں کے پاس ہر چیز کا جواب ہوتا ہے لیکن وہ سوال نہیں کرتے اور نہ ہی کر سکتے ہیں بد قسمتی سے پاکستان میں ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جن کو سوال کرنے کا طریقہ خود بھی نہیں آتا اور اگر کوئی اس استاد سے سوال کرتا ہے تو وہ استاد بات کو ادھر اُدھر لے جاتا ہے۔ لیکن درست جواب نہیں دیتا یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ سارے جوابات درست ہو وہ جوابات غلط بھی ہوسکتے ہیں۔

اگر ہم سیاست کی طرف دیکھیں تو بہت سے لوگوں کو سیاستدانوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا سیاست دان چور، ملک دشمن ہے، غدار کون ہے اور محب وطن کون ہے۔ اور یہ توقع تو ہم پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں سے ہرگز بھی نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان لوگوں میں عقل تھوڑا زیادہ ہے۔ بلکہ تحریک انصاف کے کارکن کی نظر میں محب وطن صرف عمران خان ہی ہے۔ یہاں پر بنیادی مسلہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی شخص کو جب کوئی بھی سیاستدان اچھا لگے بس وہ صرف اس کو فالو کرتا ہے وہ ان کے ماضی کو نہیں دیکھتا کہ اس سیاستدان کی سوچ کیا ہے۔ مستقبل میں اس کا کیا منصوبہ ہے۔ بس وہ شخص دوسرے سیاست دانوں ان کے کارکنوں کو گالیاں دیتے ہیں بلکہ لڑتے ہیں اور کہتا کہ میں جس کو سپورٹ کرتا ہوں وہ محب وطن ہے کرپٹ نہیں ہے۔

پاکستانی قوم کو صرف یہ معلوم ہے کہ فلاں کرپٹ ہے اور فلاں نہیں پاکستان میں زیادہ افراد لفظ کرپشن کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے دوستوں کے پاس ایک پارک میں بیٹھا تھا اس دوران سکول کے بچے بھی آئے۔ ہم سب دوست سیاست اور تعلیم پر گفتگو کررہے تھے اس دوران ایک دوست بہت جذباتی ہوا اور اس نے کہا میں آپکو حقیقت بتاتا ہوں بچے ادھر اُدھر پارک میں گھوم رہے تھے، ہمارے ایک دوست نے ایک بچے کو کہا بچے ادھر آؤ وہ بچہ آیا میرے دوست نے پوچھا کونسی کلاس میں پڑھتے ہو اس نے کہا ساتویں جماعت میں۔

میرے دوسرے دوست نے اس بچے کے ساتھ بچوں والی گفتگو شروع کی وہ بچہ بھی خوش ہوا پھر اس کے پیچھے دو تین بچے اور بھی آۓ تو میرے دوست نے ان بچوں سے سوال کیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا چور کون ہے بچوں نے فخریہ انداز اور انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا نواز شریف اس میں سے ایک نے کہا نہیں سب سے بڑا چور زرداری ہے۔ میرے دوست نے سوال کیا بچوں آپکو ان دونوں کی چوری کا پتہ ہے اس نے کہاں ڈاکہ مارا ہے یا چوری کی ہے وہ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر خاموش ہوگئے پھر میرے دوست نے کچھ مزاحیہ گفتگو شروع کی اور آخر میں ان بچوں سے پوچھا بچوں محب وطن کون ہے تو سب نے فوج کا نام لیا ایک نے کہا میں بڑا ہوکے لیفٹینٹ بنوں گا۔

آپ لوگ ان بچوں کی گفتگو سے اندازہ لگایں کہ ہمارا تعلیمی نظام کس سمت جارہا ہے ایک ہوتا ہے جاہل اور ایک ہوتا ہے ان پڑھ پاکستان میں بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جس کے پاس ڈگریاں بھی ہیں گریجویٹ ہے لیکن ان کی ڈگریاں برائے نام ہیں وہ اس لیے کہ وہ غلط اور صحیح میں فرق نہیں کرسکتے بعض جگہ پر وہ صرف غلط کی نمائندگی کرتے ہیں مطلب غلط کی پیچھے جاتے ہیں عقل و شعور کو استعمال نہیں کرتے اصل میں یہ لوگ پڑھے لکھے جاہل ہوتے ہیں۔

جب عمران خان کی حکومت تھی تو ان کے کارکنان کہتے تھے کہ ملک میں تو مہنگائی نہیں ہے بلکہ مہنگائی تو باہر کے ممالک میں زیادہ ہیں۔ اس وقت جب کوئی صحافی مہنگائی کی خلاف اخبار میں یا ٹیلی ویژن پر بات کرتا تو تحریک انصاف کے کارکنان ان صحافیوں کے خلاف غلط قسم کی گفتگو کرتے کہتے کہ یہ پی ڈی ایم کا بندہ ہے اور انہی سے پیسے لیتے ہیں یہ لفافہ صحافی ہے وغیرہ وغیرہ۔

جس طرح میں نے پہلے تحریک انصاف کے کارکنوں کا ذکر کیا کہ ان میں عقل تھوڑا زیادہ ہے ہمارے ہاں پاکستان میں یہ مسئلہ بہت عام ہے آج بھی وہی حالات ہیں سابق وزیراعظم عمران خان ایک بیان دیتا ہے تو اگلے دن اس سے یوٹرن لیتا ہے عمران خان کی اس حرکت پر اور اس طرح کے کاموں پر جب کوئی صحافی لکھتا ہے تو تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم باقاعدہ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈز شروع کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ بندہ لفافہ صحافت کرتا ہے یہ حکومت سے پیسہ لیتا ہے یہ امریکہ اور انڈیا کا ایجنٹ ہے یہ عام عوام کو گمراہ کرتا ہے اور اس کے علاؤہ عجیب قسم کی جملے بازی شروع کرتے ہیں۔

لیکن وہ سوال نہیں کرسکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں بس جو اس کے ذہن میں ڈال دیا گیا ہے انہی کو استعمال کرکے آپ کو کہتے ہیں کہ میں سب کچھ سمجھتا ہوں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جس شخص کو کوئی سیاسی بندہ اچھا لگے بس وہ اسی کے پیچھے جاتا ہے، اس سیاسی بندے میں ہزار خامیاں بھی ہوتے ہیں تو پھر بھی یہ شخص اس کے لیے جواز تلاش کرتا ہے مگر وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں کس جانب جارہا ہوں۔

ایک اور مسئلہ بھی ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ مسئلے کو ختم کرتے ہیں حل نہیں کرتے وہ اس مسئلے پر ریسرچ نہیں کرتے کہ کیوں یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے وجوہات کیا ہیں؟ اس مسئلے کو حل کس طرح کرنا ہے حالانکہ حل ہی واحد طریقہ ہے جس میں درست اور غلط کا فرق ہم معلوم کرتے ہیں جس وجوہات یا عناصر کی وجہ مسئلہ پیدا ہوا تھا یہ بھی ہم کو معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا تعلق بھی سوال ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ سوال نہیں کرتے وہ جواب سیکھتے ہیں اور جواب کے پیچھے جاتے ہیں وہاں پر مسلے حل نہیں ہوتے بلکہ ایک کے بعد دوسرا سر اٹھاتا ہے۔

موجودہ دور میں سوال کم اور جواب کی شرح زیادہ ہے۔ سوال کرنا بظاہر مشکل کام ہے لیکن سوال کرنے سے بہت سے مسائل بھی کچھ حد تک حل ہوجاتے ہیں جہاں پر کوئی سوالیہ نشان لگاتا ہے وہاں پر علم بھی پیدا ہوتا ہے اور اس سوالیہ نشان کی ذریعے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔

Check Also

Colombo Mein Guzra Aik Din

By Altaf Ahmad Aamir