Gird o Garma Haye Multan
گرد و گرما ہائے ملتان
ہر چند کہ میرا بسیرا اس شہرِ صد چراغ میں ہے جس کی خانقاہوں کی خاک سے کرامات نکلتی ہیں۔ جس کے آموں کی خوشبو محسوس کرکے پیرِ مغاں مینا نغمہ زن کو الٹ دیتا اور جس کے نفوس پرخلوص کے دم سے مجھ جیسے بے مایہ شخص کی زندگی رواں دواں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ملتان کی گرمی نارِ جہنم سے کچھ کم نہیں۔
اس وقت بھی جب میں اپنے خیالاتِ پریشاں کو سپردِ قلم کر رہا ہوں، پسینہ سر سے نکل کر جسم کے ایسے حصّوں تک پہنچ گیا ہے کہ اگر ان کا نام ضبطِ تحریر میں لے آؤں تو تحریر ہی ضبط ہو جائے اور اگر اس پسینے سے نجات پانے کے لیے لئے غسل خانے میں جائیں تو شاور سے پانی کی بجائے آتش فشاں کا لاوا نکلنے لگتا ہے اور اس سب پر طرہ یہ کہ واپڈا والوں کو یہ یقینِ کامل ہے کہ ہم سب جہنم میں جانے والے ہیں۔ اس نے بجلی کو اتنا مہنگا کردیا ہے کہ جہنم کی پریکٹس یہیں پر پوری کروا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص غلطی سے جنت میں چلا گیا تو وہاں سردی سے مر جائے گا۔
اے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
بجلی کی گرانی دیکھ کر لگتا ہے کہ واپڈا والے بجلی پانی سے نہیں، بلکہ ہمارے خون سے کشید کر رہے ہیں اور جب ایک شخص کا خون نچوڑ لیتے ہیں تو دوسرے بلند فشارِ خون کے مریض کو ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں اور جب تک وہ مل نہیں جاتا تب تک لوڈ شیڈنگ کر دیتے ہیں۔
یار لوگ کہتے ہیں کہ اگر ملتان میں گرمی نہیں ہوگی تو آم کیسے پکیں گے۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں آم کیسے پکیں گے؟ اور اگر خدانخواستہ جنت میں آم نہ ہوئے تو ایسی جگہ کو جنت کون کہے گا؟
گرمی یوں تو پورے پاکستان میں ہوتی ہے مگر ملتان میں گرمی ذاتی دشمنی پر اتر آتی ہے۔ کاش حضرت شاہ شمس نے سورج کو تکلیف دینے کی بجائے مائکروویو استعمال کر لیا ہوتا۔ یا سورج کی کوئی بیوی ہوتی جو اسے ذرا کنٹرول میں تو رکھتی لیکن صد حیف ایسا نہ ہو سکا اور اب ہم پاپ کارن کی طرح گرمی میں اچھل رہے ہیں۔
وزیر و امیر تو اس موسم میں اسلام آباد اور مری چلے جاتے ہیں اور ہم جیسے فقیر جن کے پاس ڈیرہ اڈا جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا وہ نیم کے درخت کے نیچے پڑے پڑے دو نیم ہو جاتے ہیں۔ رندانِ عقل آگاہ تمام دن ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر غروبِ آفتاب کا انتظار اس لئے کرتے ہیں کہ شب ڈھلتے ہی پیمانہ بکف طلوع ہو سکیں اور ہم فقیرِ نامہ سیاہ تمام دن تلاشِ آب و دانہ کے بعد غروبِ آفتاب پر اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ ستر پوشی کے عذاب سے نکل کر شب کی سیاہی کو پہن کر سو جائیں۔