Train Adventure
ٹرین ایڈونچر

حالات نارمل ہونے پر خاتون کے لہجے میں نرمی آئی تو اس نے دلچسپی سے پوچھا، "کہاں سے آئے ہو؟" میں نے مختصر اور شائستہ انداز میں جواب دیا، "ٹورسٹ فرام پاکستان"۔ پاکستان کا نام سنتے ہی اُس کی آنکھیں جگمگائیں، فوراً بولی، "پاکستان ہمارا محسن ہے"۔ یہ سن کر میرے دل نے خوشی سے ہلکی سی قلابازی لگائی، میں نے بھی ذرا سا سر جھکا کر احترام پیش کیا، وہ مسکرائی اور ٹرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "ٹرین آ گئی ہے"۔
اتفاق ایسا کہ وہی میری منزل کی ٹرین نکلی، اندر مسافروں کا جم غفیر، سیل والے دن شاپنگ مول کا منظر پیش کر رہا تھا لیکن ہم اندر گھس گئے، قسمت کا فیصلہ یہی نکلا کہ بادشاہوں کی طرح نہیں، عوام الناس کی طرح کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑا لیکن سفر کا مزہ تو تب ہی ہے جب تھوڑا "ایڈونچر" ہو۔
جونہی ٹرین نے رینگنا شروع کیا، ہم ڈرامائی سین کی مانند ایک دوسرے کی طرف رخ کئے کھڑے تھے، ماحول میں نئے نویلے رشتہ داروں والی خاموشی چھائی رہی، اچانک خاتون نے ناک سکوڑ کر کچھ سونگھنے کی کوشش کی اور بڑے سنجیدہ انداز میں گویا ہوئی، "پرفیوم اچھی ہے"۔ میں نے "انٹرنیشنل ایوارڈ وصول" کرنے والا شکریہ ادا کیا اور موقع غنیمت جان کر اپنا "فلسفہءِ خوشبو" بیان کیا "اچھی پرفیوم، اچھی گاڑی، خوب صورت اور ذہین عورت، میرا تجربہ ہے کہ ہر خوب صورت عورت ذہین ہوتی ہے"۔
یہ سن کر اُس کی آنکھیں کچھ ایسی چمکیں جیسے کسی نے دل کی تار چھیڑ دی ہو، ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ آئی کہ اگر شو پیس ہوتے تو دکان والے شو کیس میں رکھ دیتے، وہ بالکل فلمی انداز میں، میرے کان کے قریب آ کر آہستہ سے بولی، "مکھن اچھا لگا سکتے ہو"۔ میں نے عاجزی سے عرض کیا، "آنکھوں نے جو سراپا حسن دیکھا، وہی زبان سے ادا ہوگیا"۔ یہ سن کر اس کے چہرے کا رنگ لال، مسکراہٹ گلاب اور شرماہٹ والی ادا میں منہ پھیر کر چہرہ چھپانے کی ناکام مگر دلکش کوشش کرنے لگی جیسے بچہ اپنی شرارت چھپانے کے لیے تکیے کے پیچھے چھپے۔
ٹرین اپنی مخصوص ہچکولے دار چال سے رواں تھی اور مسافر اپنے اپنے خیالات میں ہلکورے کھا رہے تھے، درمیان میں ہم کبھی کبھار ایک دوسرے پر نظر ڈال کر دل کو "ری فریش" کر لیتے تھے، میں نے ڈبے میں نگاہ دوڑائی، رش بہت زیادہ، ہر طرف خوب صورت رشین و آذری چہروں کی بھرمار لیکن اندر کا ماحول کچھ زیادہ ہی خوشگوار ہو چکا تھا۔
وہ میری طرف دیکھ کر بولی، "پاکستانی لوگ واقعی بڑے دل والے ہوتے ہیں"۔ میں نے مسکرا کر کہا، "جی ہاں، ہم دل دیتے بھی دل سے ہیں اور تعریف بھی دل کھول کر کرتے ہیں"۔ یہ سنتے ہی وہ ہنس پڑی، جیسے کسی نے مصری کی ڈلی چینی میں ڈال دی ہو، گویا دل کی بات زبان پر آ گئی "اگر ایسے ہی باتیں کرتے رہے تو یہ سفر یادگار بن جائے گا"۔ میں نے فوراً دلی جذبات کی ترسیل شروع کر دی "اگر آپ جیسی مسافر ساتھ ہو تو منزل کی خواہش کم ہو جاتی ہے اور سفر ہی ایک خوب صورت یاد بن جاتا ہے"۔ یہ سنتے ہی اس نے ایسے انداز میں آنکھیں گھمائیں جیسے کہہ رہی ہو "واہ، یہ بندہ پورا ڈائیلاگ رائٹر ہے"۔ لیکن مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ دل کہیں ہلکی سی قلابازی ضرور کھا چکا ہے۔
ٹرین اپنے معمول کے مطابق اسٹیشنوں پر رکتی، مسافروں کو اُتارتی اور چڑھاتی جا رہی تھی اور ہم دونوں ایک ایسی "غیر سرکاری دوستی" کی پٹری پر چل رہے تھے، جس کی کوئی منزل نہ تھی مگر ہر لمحہ دلکش ضرور تھا، اچانک اس نے اپنی گھڑی دیکھی اور ماتھے پر ہلکے سے بل ڈال کر بولی، "اوہ۔۔ آدھا سفر تو ہوگیا! " میں نے جھٹ مسکرا کر کہا، "وقت تو تبھی تیز گزرتا ہے جب ساتھ اچھا ہو، آپ کے ساتھ تو منٹ بھی سیکنڈ لگ رہے ہیں"۔ یہ سن کر اُس کے چہرے پر بغیر ٹکٹ ٹرین میں سیٹ ملنے والی خوشی نمودار ہوئی۔
اسی اثناء میں وہ اپنے بیگ میں کچھ ڈھونڈنے لگی، شاید فون یا چاکلیٹ اور میں موقع دیکھ کر مذاقاً بولا، "آپ تو لگتا ہے باکو کی ملکہ ہیں"۔ وہ ہنستے ہوئے بولی، "ارے واہ! تمہارے الفاظ تو بالکل شہد میں ڈِپ کیے ہوئے لگتے ہیں"۔ میں نے کہا، "بس شہد تو آپ کی باتوں میں ہے، میں تو صرف چائے کا چمچ ہوں، جو تھوڑا سا گھما رہا ہوں"۔ یہ سن کر اس نے ہنسی پر قابو پاتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھا، لیکن آواز پھر بھی باہر نکل آئی جیسے کسی نے بوتل میں قید قہقہہ آزاد کر دیا ہو۔
جیسے جیسے ٹرین آگے بڑھ رہی تھی، وقت نے رفتار پکڑ لی تھی اور ہماری باتوں میں مزید چاشنی آ گئی تھی، وہ کبھی پرے دیکھتی، کبھی میری طرف، اچانک وہ ذرا سنجیدہ ہوگئی، "سنا ہے پاکستانی مرد تھوڑے جھوٹے ہوتے ہیں؟" میں نے فوراً دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا، "یہ بہتان ہمارے نیک کردار پر ہر ملک میں لگایا جاتا ہے! حالانکہ ہم تو اتنے سچے ہیں کہ جھوٹ بولنے سے پہلے ہی ضمیر چیخ پڑتا ہے"۔ وہ شکی نظروں سے دیکھتے بولی "واہ! تم شاعروں کی طرح جھوٹ بول رہے ہو"۔ میں نے موقع غنیمت جان کر کہا "شاعری ہو یا جھوٹ، دونوں میں بیلنس ہونا ضروری ہے اور آپ کے سامنے انسان صرف سچ بولنے کی جرات ہی کر سکتا ہے"۔ یہ سنتے ہی وہ ہنسی تو، لیکن ساتھ ہی ہاتھ سے پنکھا بنانے کی کوشش کرتے بولی "اتنی گرم باتیں مت کرو، ٹرین میں اے سی چل رہا ہے لیکن دل پگھل رہا ہے"۔
راستے میں گفتگو خوب جمی ہوئی تھی، ٹرین کا ڈبہ ریڈیو شو کا لائیو انٹرویو ماحول بن چکا تھا، وہ بتانے لگی کہ سنگل ہے، جاب کرتی ہے اور چونکہ آج لوکل ہالیڈے ہے، اس لئے ایک دوست سے ملنے جا رہی ہے، اچانک سپیکر پر اعلان گونجا:
"May 28 Metro Station"
وہ فوراً پرس سنبھالتی بولی "مجھے یہاں اترنا ہے"۔ میرے دل کو ایک ہلکا سا دھچکا لگا، ماتھے پر پسینہ نمودار ہوگیا، فلم شروع ہوتے ہی پردہ نیچے گر گیا تھا، میں نے ہنستے ہوئے کہا "آپ تو وہ اجنبی مسافر نکلیں جو دل پر سوار ہو کر فوراً اتر جاتی ہیں"۔ وہ یکبارگی مڑی اور میری طرف متوجہ ہوئی "اور تم وہ ہو جو لفظوں سے دل چُرا لیتے ہو"۔ میں ابھی پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ پھر کب ملاقات ہوگی، وہ میرا مدعا بھانپ کر بولی "شائد پھر کبھی کسی اور ٹرین میں ملاقات ہو جائے"۔ لیکن میری پریشان کا سبب مختلف تھا، اسی سٹیشن پر مجھے بھی اترنا تھا اور پلیٹ فارم پر روزا کی موجودگی بھی متوقع تھی اور ان رشین لڑکیوں کا غصہ۔۔ بس یوں سمجھیں کہ برف میں لگی آگ بھی جھلس جائے۔
ٹرین رکی، دھکے کے جھٹکے میں لوگ سنبھلنے لگے، وہ بھی تھوڑا لڑکھڑائی، میری طرف دیکھا اور میں نے آخری لمحے میں تھوڑا سا فلمی، تھوڑا سا فلسفی انداز اپنایا "پھر ملیں گے۔۔ دس ودانیا" وہ مسکراتی ہوئی باہر کا راستہ دیکھنے لگی، ہجوم بہت تھا، جیسے ہی دیگر مسافروں کے ہمراہ ٹرین سے باہر نکلی، میں نے بھی دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ دھکم پیل کا حصہ بننے کی بجائے ایک دربان کی مانند سائیڈ پر ہو کر اترنے اور چڑھنے والوں کو راستہ دوں اور ساتھ دعائیں بھی "چلو بیٹا، آرام سے، خوش رہو"۔
جب مسافروں کی آخری قسط اُتر چکی اور نئی کھیپ چڑھ چکی تو اچانک اناؤنسمنٹ ہوئی
"Doors closing, please stand clear"
یہ سنتے ہی میں نے سپائیڈر مین کی روح کو اپنے اندر محسوس کیا اور بجلی جیسے جھٹکے سے دروازے کی طرف لپکا، آٹومیٹک دروازہ بند ہونے کے آخری لمحے میرا دایاں پاؤں پلیٹ فارم پر اور بایاں پاؤں دروازے سے باہر نکل رہا تھا، اگر ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کی تاخیر ہوتی تو اگلی صبح باکو کے اخبارات میں کچھ ایسی خبر شائع ہوتی "نصف انسان باکو کی ٹرین پر، نصف 28 مئی میٹرو سٹیشن کے ریڈ لائن پلیٹ فارم پر اور پوری شرمدنگی اس کے چہرے پر"۔
میرے اس لائیو سٹنٹ پر ٹرین کے اندر سے چیخیوں کی آوازیں سنائی دیں، باہر چند لوگوں نے چونک کر میری طرف دیکھا، شائد کوئی سمجھا ہوگا کہ میں سی آئی اے کا بھاگا ہوا ایجنٹ ہوں یا پھر "مشن امپوسبل 8" کی شوٹنگ ہو رہی تھی لیکن میں پورے اطمینان کے ساتھ، گویا کچھ ہوا ہی نہیں، لمبے لمبے قدم اٹھاتا گرین لائن والے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف چلا گیا۔
دل میں بس ایک ہی جذبہ تھا، یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے، نہ روزا نے دیکھا، نہ ریلوے پولیس نے پکڑا اور نہ ہی کوئی یوٹیوبر ویڈیو بنانے پہنچا۔