Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Sheetal Bano

Sheetal Bano

شیتل بانو

گذشتہ ہفتہ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو میں سنجیدی ڈیگاری، کوئٹہ، بلوچستان کی رہائشی شیتل بانو اور احسان زرک کے بیہمانہ قتل کے بعد عوام پر جو لرزہ طاری ہوا، بلوچ رہنماؤں اور شیتل بانو کے والدین کے بیانات نے تمام صورت حال کو مشکوک کر دیا، ہر کسی کے پاس اپنی ڈفلی، اپنا راگ، بھانت بھانت کی دروغ گوئی اور کردار کُشی جاری ہے، کوئی شیتل بانو کو 38 سالہ شادی شدہ، چار پانچ بچوں کی ماں قرار دیتا ہے، کوئی بیوہ اور کوئی طلاق یافتہ، حتیٰ کہ ایف آئی آر میں بھی پہلے خاوند کا نام لکھا ہے، جس دور دراز علاقے کا یہ واقعہ ہے، امید واثق ہے کہ بانو کے ساتھ سچ بھی قتل ہو چکا ہے اور حقائق کبھی منظر عام پر نہیں آسکتے۔

کوئی کہتا ہے کہ وہ بیوہ تھی اور اس نے ڈیڑھ سال قبل احسان زرک سے پسند کی شادی کی تھی، اس بیان کے تناظر میں مقام حیرت ہے کہ کیا بلوچ معاشرے میں آج بھی طلاق یافتہ یا بیوہ کو دوسری شادی کا حق نہیں ہے؟ کسی کے بقول بانو اور احسان کو شادی کی پاداش میں علاقہ بدر کر دیا تھا مگر یہ واپس آگئے تھے، باپ نے دونوں کو دعوت پر بلا کر مقامی سردار کی مشاورت سے قتل کا فیصلہ کروایا، مگر وہ کھانے کی نہیں غیرت دکھانے کی دعوت تھی، دونوں کو لے جا کر ایک چٹیل میدان میں کھڑا کردیا جاتا ہے وہاں 19 غیرت مند بلوچ مرد کھڑے ہیں جن میں سے پانچ کے پاس لوڈڈ اسلحہ ہے، بڑی سی چادر میں لپٹی بانو اور احسان کو گاڑیوں کے قافلے میں قتل گاہ پر لاکر اتارا جاتا ہے۔

ان تمام تر فرضی یا اصلی قصوں سے پرے میری توجہ کا مرکز بانو کا قتل گاہ کی طرف بڑھنے والا پراعتماد عمل تھا، اگر انسان گنہگار ہو تو وہ روتا، گڑگڑاتا، پاؤں پڑتا اور معافیاں مانگتا ہے کہ اسے ایک موقع دیا جائے لیکن یہ کیسی بے خوف خاتون تھی کہ ہاتھ میں قرآن تھامے قبیلے کے مردوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے سکون سے آگے بڑھتی ہے "صرف گولی مارنے کی اجازت ہے" جبکہ اس کی اجازت کسی نے طلب ہی کب کی تھی؟ وہ قتل گاہ کی جانب خود بڑھی، اسے اپنا انجام معلوم تھا اس لیے نہ اس کے پاؤں کانپے، نہ آنکھوں میں التجا تھی، نہ لبوں پر چیخ، نہ دامن میں رحم کی بھیک، اس کی خاموشی میں وہ شور تھا جو ان سب چیخوں پر بھاری تھا جو ظلم کے خلاف کبھی نہ نکل سکیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے 9 گولیاں ماری گئیں۔

انسانی نفسیات کے مطابق بعض اوقات انسان اتنے زیادہ گناہوں میں ڈوبا ہوتا ہے کہ چھوٹا یا بڑا گناہ اُس کی نظر میں بے وقعت ہو جاتا ہے، ضمیر کی آواز دب چکی ہوتی ہے، دل سخت ہو چکا ہوتا ہے لیکن موت اور وہ بھی یقینی موت، جب آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہو، تو بڑے بڑوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، کوئی توبہ کے در کھٹکھٹاتا ہے، جبکہ کوئی حالات و انسانی رویوں سے مکتی کی تلاش میں خود ہی موت کو گلے لگا لیتا ہے، مگر یہاں اصل نکتہ بانو کی بے خوفی تھی، اُس نے نہ موت سے ڈر محسوس کیا، نہ ضمیر کی ملامت سے، اُس کی آنکھوں اور چال میں ایک عجیب سا سکون تھا جیسے وہ جانتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہی ہے، وہی اُس کی سچائی ہے۔

موت سے کم سزا پر تو قبائلی غیرت کو چین نہیں آتا، اس نام نہاد قبائلی غیرت کو بھی سلام جو غیرت کے نام پر اپنی ہی بیٹی کو بے غیرت مردوں کے مجمع کے سامنے لائے اور میدان میں کھڑا کرکے غیرت کی پگ پر ایک اور کلغی سجا لی، ایک اور بیٹی ہار گئی، پگڑیاں جیت گئیں۔

وہ گولی گرچہ بانو کے جسم کو چیر گئی، مگر اس کی ہمت کو اور اس کی آواز کو ہمیشہ کے لیے امر کر گئی، بانو اپنی جان دیکر ایک سوال پیچھے چھوڑ گئی، "آخر کب تک؟" کیا ان کے قاتل کبھی سکون کی نیند سو سکیں گے؟ کیا ان کے ضمیر کبھی چین پا سکیں گے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قبائلی معاشرے میں ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے، پنجابی شناختی کارڈ دیکھ کر گولی مارنے والے معاشرے میں بانو کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، ایک دن معاشرہ تمہارے قاتلوں کو نہیں بلکہ تمہیں سلام پیش کرے گا، یہ محض دو انسانوں کا قتل نہیں، یہ انسانیت، محبت، آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کا گلا گھونٹنے کی ایک اور دل دہلا دینے والی واردات ہے۔

زمانے کے چلن سے برسرِ پیکار عورت ہوں
سو ہر اک مرحلے پر جبر سے دوچار عورت ہوں

مرے اندر نمو پاتی ہیں آنے والی نسلیں بھی
خدا کے بعد میں تخلیق کا کردار عورت ہوں

اگر وہ طلاق یافتہ یا بیوہ تھی تو کیا ایک لڑکی کا اپنی مرضی سے شریکِ حیات چننا گناہ ہے؟ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مرد و عورت دونوں کو شادی کے فیصلے میں اختیار دیا ہے، تو پھر ان خود ساختہ غیرت کے ٹھیکیداروں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس فیصلے کو اپنی انا، ضد اور جھوٹی عزت کا مسئلہ بنا دیں؟ کیا ان کے نزدیک دین صرف کچھ مخصوص ظاہری عبادات کا نام ہے؟ کیا اسلامی احکامات صرف ٹخنوں سے اوپر شلوار، داڑھی اور ظاہری وضع قطع تک محدود ہیں؟ کیا محبت، احترام، رحم اور عدل جیسے اسلامی اصولوں کی کوئی وقعت نہیں؟

قرآن کہتا ہے "جس نے کسی ایک جان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا"۔ (سورۃ المائدہ، آیت 32)

یہ قبائلی معاشرہ کب سدھرے گا؟ کب یہ درندہ صفت لوگ انسان بنیں گے؟ کب انہیں احساس ہوگا کہ عزت، غیرت اور شرف قتل سے نہیں، معافی، محبت اور انصاف سے ملتا ہے؟ دنیا آج بھی انہیں وحشی، جاہل اور سفاک کہتی ہے اور جب یہ اپنی بیٹیوں کو صرف اس لئے مار ڈالتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنا چاہتی ہیں، تو کیا دنیا غلط کہتی ہے؟

اللہ کب ان کو ہدایت بخشے گا؟ یہ لوگ اپنی نام نہاد غیرت و انا کی خاطر کب تک انسانی جانوں سے کھیلیں گے؟ دنیا کا ہر جرم بالخصوس منشیات و اسلحہ سمگلنگ یہ لوگ اسلام کی آڑ میں کرتے ہیں اور پھر اپنے جرم کو مذہب کا لبادہ پہنا کر معصوم بننے کی کوشش کرتے ہیں، انہی فتنہ انگیز اعمال و افعال کا شاخسانہ ہے کہ مہذب دنیا ان لوگوں سے دور رہنا پسند کرتی ہے، یہ قبائلی لوگ کسی نئے فرد کو اپنے درمیان برداشت نہیں کر سکتے، ہاں اگر اجنبی فرد کی جیب بھری ہو تو اسے بخوشی اپنی کم سن کنواری بیٹیوں کا رشتہ بھی مذہبی فریضہ سمجھ کر دیتے ہیں۔

بلوچستان میں بانو اور احسان زرک کا بہیمانہ قتل محض ایک سانحہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک ایسا زخم ہے جو ہر لمحہ ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب کبھی "غیرت" کا تذکرہ ہوتا ہے تو نشانہ عورت ہی کیوں بنتی ہے؟ کیا غیرت صرف عورت کے جسم اور فیصلے سے مشروط ہے؟

نہیں۔ کیونکہ اس سماج میں عورت کو نہ انسان سمجھا جاتا ہے، نہ صاحبِ رائے، اسے "نابالغ" سمجھ کر دوسروں کے فیصلے کا تابع بنایا جاتا ہے یا "شر" سمجھ کر قابو میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، معاشروں کی پہچان اس سے ہوتی ہے کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم عورت کو چھپاتے یا دفناتے ہیں، اسے بولنے یا جینے نہیں دیتے، محبت کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

بانو کے پاس موقع تھا کہ وہ بھاگ جائے، چھپ جائے، یا معافی مانگ لے لیکن وہ نہیں ڈری، وہ کھڑی رہی، وہ چلی گئی اُس طرف، جہاں موت اس کا انتظار کر رہی تھی، یہ کہتے ہوئے۔

"صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے"۔۔

Check Also

Law Of Attraction

By Rauf Klasra